1986ءمیں جب بسلسلہ روزگار سعودی عرب گیا تو یہ وہ زمانہ تھا جب شاہی خاندان کا طوطی چاروں اور پھیلا ہوا تھا۔ انٹرنیٹ کیبل، کمپیوٹر تو بہت دور کی بات ہے سعودیہ کے سرکاری ٹی۔وی چینل پر نہ تو مکہ سے نماز دکھائی جاتی تھی اور نہ ہی مدینہ سے۔ بس اذان کے وقت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو لنک کر دیا جاتا۔ اس کے بعد پھر حج کے دنوں میں سارا دن حج ہی کی نشریات جاری رہتیں۔ وہاں جانے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ سعودی عرب میں کاروبارِ زندگی شمسی کیلنڈر کی بجائے قمری کیلنڈر کے تحت ہوتا ہے۔ وہ کیلنڈر حکومتِ سعودیہ یکم محرم الحرام کو شائع کر کے مارکیٹ میں لانچ کر دیتی ہے۔ پھر مختلف پرنٹنگ کے ادارے ان کے کیلنڈر بنا کر فروخت کے لیے بازار لے آتے۔ قمری کیلنڈر کی خوبی یہ ہوتی تھی کہ اس میں رمضان المبارک، عیدالفطر، پھر حج اور عیدالاضحی یہ سب چیزیں ایک سال پہلے ہی طے کر لی جاتیں۔ اس کے نتیجے میں سعودی عرب میں کبھی بھی عیدین کے چاند کا مسئلہ نہ ہوا۔ اور مسئلہ بھی کیسے ہوتا پاکستان میں یہ مسئلہ تو سعودیہ کے چاند کی وجہ سے ہوتا ہے۔ وہاں جا کر احساس ہوا کہ شاہی خاندان کی حکمرانی جہاں ہر شعبہ¿ زندگی پر دکھائی دیتی ہے وہاں پر وہ اپنے تہواروں کے معاملے میں بھی ایک سال پہلے فیصلے کر لیتے۔ البتہ اگر حج جمعہ کو آتا تو حجاج کرام بہت خوش ہوتے کہ جمعتہ المبارک کے حج کو حجِ اکبر کا نام دیا جاتا۔ لیکن حکمرانوں کے لیے یہ نیک شگون نہ ہوتا۔ کہ سعودیہ والے یہ کہتے ہیں کہ جب جمعہ کا حج ہو حکمرانوں کے لیے کوئی نہ کوئی ضرور مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ سعودی عرب میں ڈیڑھ دو سال قیام کے دوران ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ مجھے قمری مہینوں کے نام ازبر ہو گئے جو اُس سے پہلے بڑی مشکل سے ذہن میں آتے تھے۔
1986ءسے لے کر 2016ءتک کے عرصے میں سعودی عرب نے بہت ترقی کی۔ حجاج کرام اور زائرین کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا جس سے اُن کے زرِ مبادلہ کے ذخائر حیرت انگیز طور پر بڑھ گئے۔ ایک طرف سعودیہ جانے والوں کی وجہ سے وہاں کے رہنے والوں کے حالات بہت بہتر ہو گئے تو دوسری جانب عالمی منڈی میں تیل کی حیرت انگیز کمی کی وجہ سے اُن کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا۔ اس نقصان کی وجہ سے سعودی حکومت نے چند سال پہلے عالمی اداروں سے اپنے لیے قرضہ بھی لیا جس وجہ سے وہاں کے رہنے والوں اور تارکینِ وطن کے لیے سعودی حکومت نے بےشمار ٹیکس لگا دیئے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سعودیہ میں رہنے والے اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ ٹیکسوں کی مَد میں دے رہے ہیں۔ اس وجہ سے وہاں کے رہنے والے معاشی بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔ اپریل 2016ءمیں آزاد خیال اور ماہرِ معاشیات سعودی نائب ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے ملک کے لیے ترقیاتی منصوبے کا اعلان کیا۔ جس کو سرکاری سطح پر ”ویژن 2030ئ“ کا نام دیا گیا۔ اس منصوبے کے منظرِ عام پر آنے سے قبل محمد بن سلمان کے سعودی معیشت کے بارے میں جو اقدامات تھے اس کو خصوصی طور پر ذرائع ابلاغ کے ذریعے نمایاں کیا گیا۔ محمد بن سلمان نے اپنے ملک کی معیشت کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ اب ہمیں سرکاری طور پہ قمری کیلنڈر کو خداحافظ اور شمسی کیلنڈر کے تحت کام کرنا ہو گا۔ جب محمد بن سلمان نے یہ اعلان کیا تو اس کے اِس اعلان کی مخالفت مذہبی حلقوں کے ساتھ ساتھ وہاں کی عوام کی طرف سے بھی کی گئی۔ کیونکہ وہ ذہنی طور پر اس تبدیلی کے لیے تیار نہ تھے یہی وجہ ہے کہ اپریل 2016ءسے لے کر دسمبر 2016ءتک مختلف انداز سے اُن کے اس فیصلے کو تنقید کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ دوسری طرف سعودی نائب ولی عہد محمد بن سلمان کا یہ کہنا تھا کہ اگر آنے والے دنوں میں مجوزہ ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع ہو جاتا ہے تو عالمی دنیا میں ہماری گرتی ہوئی ساکھ خاص طور پر معیشت کو سنبھالنے میں مدد ملے گی۔ محمد بن سلمان نے جب اپنے عہدے پر کام شروع کیا تو انہیں یہ معلوم ہوا کہ حکومت نے ورلڈ بینک اور آئی۔ایم۔ایف سے جو قرضے لے رکھے ہیں اُس کو وہ قمری کیلنڈر کے اعتبار سے ادائیگی کر رہی ہے۔ اگر سعودی حکومت 33 سال کے قرضے قمری کیلنڈر کی بجائے شمسی کیلنڈر میں ادا کرے تو وہ ادائیگی 32 سال میں ہو گی یوں ایک سال کے اس فرق کے بعد سعودی عرب کو بلین ڈالرز کا فائدہ ہو گا۔
دنیا کے لوگ جانتے ہیں کہ سعودی عرب کے شاہی خاندان نے جس انداز سے حکمرانی کی ہے وہاں پر نئی چیزوں کو لانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ محمد بن سلمان کا یہ اقدام سعودی عرب کے لیے ایک نئے انقلاب کی بنیاد ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس کو وہ اسلامی معاشرے کی بنیاد قرار دیتے ہیں مثال کے طور پر نماز کے وقت بازاروں کا بند ہو جانا، سعودی خواتین کے لیے حجاب کی پابندی، موسیقی پر پابندی وغیرہ وہاں کے حکمرانوں کی بنیادی پہچان ہے۔ چند سال قبل جب سعودی حکومت نے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دی تو تب بھی وہاں کے مذہبی حلقوں میں اس کام کی شدید مخالفت کی تھی۔ اور اب جب سعودی عرب کا سرکاری نظام عیسوی کیلنڈر میں تبدیل ہونے جا رہا ہے تو اس کے بعد وہاں کے معمولات میں زمین و آسمان کا فرق آ جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری سطح پر اس تبدیلی پر خدشات اپنی جگہ پر لیکن انتہائی مضبوط اور نظریاتی بنیادوں پر قائم سعودی عوام کا ردِ عمل وہاں کی حکومت کے لیے ایک مشکل عمل ہو گا۔ سب سے کڑا مرحلہ سعودی عرب کی عدالتوں میں سامنے آئے گا جب وہاں پر قمری کیلنڈر کی تاریخوں پر اصرار کرنے والے شمسی کیلنڈر کے تحت کام کریں گے۔ ویژن 2030ءکے تحت سعودی عرب کی عدلیہ کے ساتھ ساتھ شاہی خاندان کی تنخواہوں اور مراعات میں کمی بھی کی گئی ہے۔ اس منصوبے کے بانی محمد بن سلمان کا یہ کہنا ہے کہ نئی سوچ کے تحت جب ہم یکم جنوری 2017ءکو اپنے کام کا آغاز کریں گے تو سعودی عرب کی تاریخ میں ایک نئے دن کا آغاز ہو گا جس کے بعد ہم پوری دنیا سے مقابلے کے لیے تیار ہوں گے۔
قمری کیلنڈر سے لے کر شمسی کیلنڈر تک سعودی عرب میں بے شمار تبدیلیوں کا امکان ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کے رہنے والے ویژن 2030ءکو کس انداز سے قبول کرتے ہیں۔ لیکن غیر جانبدارانہ انداز سے دیکھا جائے تو سعودی نائب ولی عہد محمد بن سلمان کا یہ اقدام وہاں کے عوام اور شاہی خاندان کے لیے بہتر پیغام لائے گا کہ اس تبدیلی کے بعد وہ دنیا کے برابر اپنے امور سرانجام دیں گے۔ ان تمام تبدیلیوں کے باوجود ہمارے ذہن میں ایک سوال بار بار اُٹھتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں سعودی عرب میں زیارات کے حوالے سے جانے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور سعودی حکومت نے جہاں ویزہ فیس میں بھی اضافہ کیا وہاں پر جانے والے واضح طور پر یہ بات محسوس کرتے ہیں کہ مہنگائی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لاکھوں لوگوں کے ہر ماہ آنے جانے سے اُن کو زرِ مبادلہ کی مَد میں جو رقوم مل رہی ہیں اُن کا مصرف کہاں پر ہے؟ اتنے لوگوں کے سعودی عرب میں آنے کے باوجود وہاں کی معیشت بحران کا شکار کیوں ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ سعودی نائب ولی عہد صرف ویژن 2030ءتک ہی نہیں رکیں گے بلکہ مستقبل میں وہ حج اور عمرہ کے تحت آنے والے زائرین پر بہت سے نئے ٹیکس بھی لگائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب میں جو غیر ملکی کام کر رہے ہیں وہ سعودی حکومت کے نئے ٹیکسوں کی وجہ سے پہلے ہی پریشان ہیں۔ اگر شاہی خاندان نے اُن پر نئے ٹیکسوں کا اضافہ کر دیا تو شاید اُن کے لیے وہاں رہنا ممکن نہ ہو۔ فی الحال ہم اس بات کے منتظر ہیں کہ شاہی خاندان اور وہاں کے حکمرانوں کے علاوہ عوام ویژن 2030ءکی کس طرح پذیرائی کرتے ہیں۔
فیس بک کمینٹ