ہو سکتا ہے کہ دنیا کے جمہوری ملکوں میں سیاست کی جمع تفریق میں ریاضی کے کلئے لاگو ہوتے ہوں، وطنِ عزیز کی سیاست میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہاں دو جمع دو سے چار کبھی نہیں بنتا۔ ہمیشہ فریقین اپنے لئے دو جمع دو سے چار کی بجائے پانچ ساڑھے پانچ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوسرے کو تین ساڑھے تین پر ٹرخانا چاہتے ہیں۔ اسی لئے انتخابی عمل شفاف نہیں رہتے۔ ہر قیمت پر، ہر طریقے سے جیتنے کا جنون، قانون، ضابطوں اور جمہوری اقدار کو پامال کرتا چلا جاتا ہے۔ کامیابی کے لئے ہر جائز ناجائز حربہ استعمال کیا جاتا ہے جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ طاقت استعمال کرتا ہے جس کے پاس دولت ہوتی ہے وہ دولت استعمال کرتا ہے۔ یہ چلن افراد کا بھی ہے، جماعتوں کا بھی ہے اور اداروں کا بھی ہے۔ ہم نے ایوب دور سے لے کر اب تک کے تمام انتخابات دیکھے ہیں اور یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہم میں جیتنے کی لگن تو ہے مگر ہارنے اور ہار کو تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں۔ اسی لئے کہا ہے کہ انتخابات میں ایک امیدوار جیتتا ہے باقیوں کے ساتھ دھاندلی ہو جاتی ہے ہارتا کوئی بھی نہیں۔ ہر عام انتخاب کے بعد دھاندلی کا الزام لگتا ہے اور جیتنے والوں کے خلاف احتجاجی تحریک چلتی ہے 1977ء کے انتخابات کے بعد بھٹو مرحوم کے خلاف تحریک چلی جوان کا اقتدار ہی نہیں جان بھی لے گئی۔
2013ء کے الیکشن کے بعد بننے والی مسلم لیگی حکومت کے خلاف تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے احتجاجی تحریک چلائی اور ایک سال بعد ہی 2014ء میں دھرنا دے کر حکومتی مشینری کو مفلوج کر دیا۔ اب 2018ء کے انتخاب کے بعد بھی حکومت مخالف تحریک چل رہی ہے رواں ماہ میں جتنے حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے اس کی مثال کسی ایک ماہ میں ملنی مشکل ہے۔ پہلے ملیر کراچی، سانگھڑ پی ایس 43 اور پشین بلوچستان کے صوبائی حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوا۔ پھر این اے 75 ڈسکہ، کرم کے قومی حلقے، نوشہرہ کے پی کے صوبائی حلقے، وزیر آباد کے صوبائی حلقے اور پھر تھرپارکر کے قومی حلقے میں ضمنی انتخاب ہوا۔ ہر الیکشن میں جیتنے ہارنے کا فیصلہ ووٹروں کی رائے سے ہونا چاہئے یہی جمہوریت کی روح ہے مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ موجودہ عمومی تاثر اس کے خلاف ہے۔ ہمارے خیال میں دیگر عوامل ووٹر کی مرضی سے زیادہ مضبوط ہیں۔ کبھی ہم انہیں خلائی مخلوق کہہ دیتے ہیں کبھی نادیدہ قوتیں کبھی فرشتے اور کبھی مقتدرہ کا نام دیتے ہیں ہمارے ہاں یہ تصور ہی ناپید ہوتا جا رہا ہے کہ ووٹر جس کے حق میں ووٹ دیں گے وہی کامران ہوگا۔ ایک زمانہ تھا کہ ووٹ لینے اور ووٹ دینے والوں دونوں کو یقین ہوتا تھا کہ کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ ووٹ کی پرچی کرے گی اس سلسلے میں بیگم عابدہ حسین کی بات یاد آتی ہے۔
متعدد کامیابیوں کے بعد جب وہ قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئیں تو ان سے صحافیوں نے پوچھا کہ آپ کیسے ہار گئیں؟ تو انہوں نے برجستہ کہا کہ ”لوگوں نے ووٹ نہیں دیئے“ اللہ کرے کہ یہی رائے عام اور مستحکم ہو لیکن اس کے لئے امیدواروں اور ان کے جوشیلے حامیوں کو اپنے اندر حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے متذکرہ نوحلقوں میں اسی ماہ فروری میں جو ضمنی انتخابات ہوئے ہیں وہ کئی حوالوں سے خاص (Special) ہو گئے۔ ایک افسوسناک واقعہ ڈسکہ میں فائرنگ کا ہو گیا جس میں دو نوجوان جان سے گئے۔ متعدد زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ نہ ہوتا تو بہتر تھا کہا جاتا ہے کہ ضمنی الیکشن حکومت وقت کے ہوتے ہیں۔ ایک تو عام ووٹر یہ سمجھتا ہے کہ جس پارٹی کی حکومت ہے اسی کے امیدوار کو کامیاب کرایا جائے تو علاقے کے ترقیاتی کام اور لوگوں کے ذاتی کام کرانے میں آسانی ہو گی۔ دوسرے حکومت کے پاس لوگوں کو راضی کرنے کے وسائل ہوتے ہیں۔ تیسرے اگر وہ چاہے تو اپنے امیدوار کو جتوانے کے لئے سرکاری مشینری کو استعمال بھی کر سکتا ہے۔ مگر اس بار ایسا نہیں ہوا، بلوچستان، نوشہرہ، وزیر آباد کی نشستیں اس کی واضح مثال ہیں۔
ان تمام پر حکومتی جماعت کے امیدواروں کو واضح شکست ہوئی ہے یہ کہا جا سکتا ہے اور کہا بھی جا رہا ہے کہ حکومت کی اڑھائی سال کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ عام آدمی کی زندگی مہنگائی، بیروزگاری کے باعث اجیرن ہو گئی اس لئے ووٹر حکومت سے دور ہو گیا۔ لیکن یہ بھی تو نظر آ رہا ہے کہ سرکاری مشینری کا اس طرح بے محابا استعمال نہیں ہوا جس طرح ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ ڈسکہ کے قومی حلقے این اے 75 میں انتخابی عملے کے کئی گھنٹے تک غائب رہنے کے تشویشناک واقعہ پر الیکشن کمیشن نے پریس ریلیز جاری کر کے سرکاری مشینری پر جس طرح فرد جرم عائد کی ہے ایسی جرأت پہلے کبھی الیکشن کمیشن کے نامہ اعمال میں نظر نہیں آئی۔ الیکشن کمیشن نے اس پریس ریلیز کے ذریعے خود مختاری کے جس راستے پر قدم رکھ دیا ہے اللہ کرے کہ اس پر سفر جاری رہے اور ہمارے تمام قومی ادارے دباؤ سے آزاد ہو کر فیصلے کرنے کی جرأت کرنے لگ جائیں تو جمہوریت کا پودا جڑ پکڑ لے گا اور جمہوری اقدار کا گلشن گل و گلزار ہو جائے گا۔ حکومت کرم کے قومی حلقے سے اپنی کامیابی پر شاداں و کامراں رہے یہ اس کا حق ہے لیکن باقی حلقوں میں ناکامی میں جو سبق پوشیدہ ہے اس کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔
نوشہرہ کے صوبائی حلقے میں تحریک انصاف کے امیدوار کی ناکامی سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو جو کامیابی ملی ہے وہ ”اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“ کی آئینہ دار ہے۔ وفاقی وزیر دفاع اور وزیر اعظم کے دست راست پرویز خٹک کے بھائی صوبائی وزیر (اب سابق) لیاقت خٹک اور ان کے گھرانے نے جس طرح اپنی ہی حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے مسلم لیگی امیدوار کی انتخابی مہم چلائی اور ان کی فتح کے جشن میں شرکت کی وہ بہت سیریس مسئلہ ہے۔ اس کا حل محض ان کو وزارت سے نکالنا نہیں ہے ان وجوہات اور عوامل کا مداوا ضروری ہے تاکہ آئندہ اس قسم کی شرمندگیوں سے بچا جا سکے۔ پہلے قدم کے طور پر وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو اپنا مردم بیزاری کا امیج تبدیل کر لینا چاہئے وہ اگر اپنے ساتھیوں کی خوشی غمی میں شرکت سے ابتدا کر لیں توکچھ نہ کچھ افاقہ ہونے کا امکان ہے۔
بشکریہ : روزنامہ پاکستان )
فیس بک کمینٹ