اتنے قیمتی لوگ تو کسی سیلاب، زلزلے، طوفان، حادثے یا آفتِ ارضی و سماوی کی نذر نہیں ہوئے جتنے موجودہ کورونا وبا کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اپنے اپنے شعبے کے سرکردہ ماہرین فنا کے گھاٹ اتر گئے۔ ذاتی حوالے سے جتنے پے درپے صدمات اس وبا نے پہنچائے ہیں پہلے کبھی نہیں سہنے پڑے۔ آج کی تحریر انہی رفتگانِ عزیز کی یاد میں ہے۔ ساٹھ ستر کے عشرے کے ممتاز ادیب اور مترجم، اسی نوے کی دہائی کے معروف نعت گو شاعر جناب لالہ صحرائی (اصل نام چودھری محمد صدیق) کے داماد اور ممتاز معالج ماہر امراض چشم ڈاکٹر نوید صادق کے بہنوئی چودھری وحید احمد اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تو ان کے گھر تعزیت کے لئے جانا ہوا۔ اہلیہ کے ہمراہ گاڑی پر واپسی ہوئی تو مغرب کا وقت ہو رہا تھا۔ موبائل پر ہمدم دیرینہ ادریس چودھری کا فون آیا۔ جاوید ہاشمی انتقال کر گئے ہیں۔ جنازہ ساڑھے 9 بجے خانیوال میں ہوگا۔ سناٹے میں آ گیا۔ گبھرا کے پوچھا کہ خانیوال میں کیوں؟ جواب آیا کہ مرحوم کی رہائش اور پریکٹس وہیں تھی۔ تب عقدہ کھلا کہ یہ جاوید ہاشمی در اصل خانیوال کے نامور وکیل تھے جو ہمارے لاء کالج فیلو تھے۔ تب وہ جاوید اقبال قریشی تھے۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے طالبعلم رہنما (مخدوم) جاوید ہاشمی کا ان دنوں طوطی بولتا تھا۔ ان سے متاثر ہو کر جاوید اقبال نے اپنے نام کے ساتھ قریشی کی جگہ ہاشمی لکھنا شروع کر دیا۔
وہ کبیر والا کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ سیاسی طور پر سر گرم طالبعلم رہنما تھے اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل تھے۔ لاء کالج میں سٹوڈنٹس یونین کا الیکشن بھی لڑا تاہم کامیاب نہ ہو سکے۔ لاء کرنے کے بعد اپنے آبائی ضلعی صدر مقام خانیوال میں پریکٹس شروع کی اور محنت کے بل بوتے پر نہ صرف کامیاب وکیل بن گئے بلکہ پیپلزپارٹی میں شامل ہو کر ”وکیلی سیاست“ میں سرگرم ہو گئے۔ سالہا سال صدر ڈسٹرکٹ بار اور رکن پنجاب بار منتخب ہوتے رہے انہیں پیپلز لائرز فورم کا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا تھا۔ گزشتہ ماہ جون میں وہ علیل ہوئے۔ پتہ چلا کہ کورونا ہو گیا ہے انہیں نشتر ہسپتال ملتان میں داخل کروا دیا گیا سخت اذیت کے دو ہفتے گزارنے کے بعد وہ روبصحت ہو گئے۔ کورونا سے جان چھوٹ گئی۔ ہسپتال سے فارغ ہو کر گھر پہنچے۔ اہلخانہ اور احباب میں اطمینان اور خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مگر تیسرے ہی دن دل کا دورہ پڑا اور خالق حقیقی سے جا ملے۔ ہمارے دور کا محنت اور محض محنت کے بل بوتے پر کامیاب ہونے والا، ہمارے لڑکپن کا دوست داغ مفارقت دے گیا۔ عمر 65 کے قریب تھی۔
ہماری صحافت کی دوسری دہائی میں جس سب سے زیادہ صاحب مطالعہ، درویش صفت سرکاری افسر سے دوستی ہوئی اس کا تعلق اپنے ہی متعلقہ محکمہ اطلاعات سے تھا۔ رانا اعجاز احمد انقلابی سوچ کا صاف گو نوجوان افسر تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ملتان میں وسیع حلقہ احباب بنا لیا۔ تعلق تو اس کا پسماندہ ضلع لیہ کی تحصیل چوک اعظم سے تھا لیکن محفل میں بڑے بڑے ترقی یافتہ علاقوں کے لوگ اس کے آگے پانی بھرتے تھے۔ صاف گوئی کے باوجود صحافیوں جیسے اوکھے طبقے میں تعلقات دوستانہ رکھنے میں اسے جو مہارت حاصل تھی وہ محکمہ اطلاعات کے بہت کام آئی۔ اس نے زیادہ تر لیہ، ملتان اور بہاولپور میں خدمات انجام دیں۔ کتاب اس کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ معلومات کا چلتا پھرتا خزانہ تھی اس کی ذات اس کے رویئے اور لب و لہجے میں مٹھاس اتنی زیادہ تھی کہ وہ ذیابیطس (شوگر) بن گئی۔ پھر محفل آرائی کی وجہ سے پرہیز کا قائل ہی نہیں تھا۔ ہر موقع پر شعر سنانا اس کا اضافی وصف تھا۔ سینکڑوں ہی نہیں ہزاروں اشعار ازبر تھے پھر سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہر شعر کے خالق کا حوالہ بھی ساتھ ہوتا۔ حافظہ بلا کا تھا۔ احباب کے فون نمبر زبانی یاد ہوئے۔ آخری تعیناتی بہاولپور میں ہوئی جہاں وہ ڈائریکٹر انفارمیشن کے عہدے پر تعینات تھے۔
پھر انہیں بہاولپور آرٹس کونسل کا ریذیڈنٹ ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ وہ نوجوانی سے سنجیدہ فکر تھا مگر چہرے پر کبھی یبوست طاری نہیں کی۔ دو سال قبل ان کے والد انتقال کر گئے تو ملتان کے ڈائریکٹر انفارمیشن سجاد جہانیہ، ممتاز شاعر رضی الدین رضی اور شاکر حسین شاکر کے ہمراہ چوک اعظم جنازے میں شرکت کے لئے جانے کا موقع ملا۔ جناز گاہ بھر گئی۔ لگتا تھا سارا چوک اعظم امڈ آیا ہے جون کے دوسرے ہفتے پتہ چلا کہ اعجاز کی طبیعت خراب ہے۔ پھر ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر آصف کھیتران نے فون کر کے بتایا کہ اعجاز کی حالت سیریس ہے وہ دیکھ کر آئے ہیں۔ پوچھنے پر بتایا کہ کورونا ہو گیا ہے۔ پہلے ڈسٹرکٹ ہسپتال پھر بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں داخل رہے۔ ٹھیک ہو کر گھر آ گئے۔ سب احباب کو اطمینان ہو گیا کہ کورونا سے جان چھوٹ گئی اب خیر ہے مگر تین دن بعد دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا جسد خاکی چوک اعظم پہنچایا گیا۔ پھر وہی جناز گاہ اور پھر وہی غم گساروں کا جم غفیر۔ وہ سب کو اشکبار چھوڑ کر راہی ملک عدم ہو گیا۔ حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا عمر 56 سال تھی۔
اپنی صحافت کے دوران ہی اسی کے عشرے میں ایک بار نشتر میڈیکل کالج کی سالانہ تقریب میں جانے کا اتفاق ہو گیا۔ امتحانی نتائج کی روشنی میں طالب علموں کو اعزازات دیئے جا رہے تھے۔ ایک سمارٹ سے خوبصورت طالبعلم کو بار بار بلایا جاتا اور اس کے گلے میں تمغہ ڈال دیا جاتا۔ دیکھتے دیکھتے اس کی گردن طلائی اور نقرئی تمغات سے بھر گئی۔ ان کی تعداد 18 تھی میں نے ساتھی صحافی سے سرگوشی کی کہ تمغوں کے بوجھ سے کہیں نوجوان کی گردن میں بل نہ پڑ جائے پھر اسی نوجوان کو نشتر میڈیکل کالج کا بہترین طالبعلم ہونے کی شیلڈ بھی دی گئی۔ یہ نوجوان ڈاکٹر مصطفیٰ کمال پاشا تھا جو اس وقت کے نامور سرجن ڈاکٹر پروفیسر محمد کمال پاشا کا فرزند تھا۔ یہ ہونہار طالبعلم طب کی اعلیٰ تعلیم کے لئے برطانیہ گیا وہاں سے جراحت (سرجری) کی جدید تکنیک لیپو تھراپی کی تربیت لے کر وطن لوٹے وہ پاکستان میں لیپو تھراپی متعارف کرانے والے پہلے سرجن بنے۔ وہ کالج کے بہترین طالبعلم ہی نہیں لان ٹینس کے چیمپئن بھی رہے۔جب 2017ء میں نشتر میڈیکل کالج کو ترقی دے کر نشتر میڈیکل یونیورسٹی بنا دیا گیا تو وہ اس کے پہلے وائس چانسلر تعینات ہوئے۔ وہ یونیورسٹی کے انتظام و انصرام کے ساتھ ساتھ سماجی سرگرمیوں میں بہت متحرک تھے۔ انہیں بھی جون کے مہینے میں کورونا ہوا۔ وہ ہسپتال میں داخل ہوئے ان کی صحت کے بارے میں تشویشناک خبریں پھیلیں تو انہوں نے بستر علالت سے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں کہا کہ وہ ٹھیک ہیں۔ تشویش کی کوئی بات نہیں۔ انہوں نے قرنطنیہ کیا ہوا ہے چائے پی رہے ہیں۔ موج کر رہے ہیں۔ ایک ہفتے بعد وہ اپنے رفقائے کار کے پاس پہنچ جائیں گے۔ وہ واقعی ایک ہفتے بعد نشتر میڈیکل یونیورسٹی پہنچ گئے مگر اپنے قدموں پر نہیں اپنے احباب کے کاندھوں پر۔ عمر 63 سال تھی۔ ان کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ پیدا نشتر ہسپتال میں ہوئے، پڑھے نشتر میڈیکل کالج میں اور ٹاپ کیا۔ ملازمت نشتر کالج میں کی اور آسودہ خاک نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے قبرستان میں ہوئے۔ ابتداء بھی نشتر کالج اور انتہا بھی۔
ستر کے عشرے میں طلبہ سیاست سے جو لوگ نمایاں ہوئے ان میں ملتان کے قیوم خان خوگانی نامی نوجوان بھی تھا وہ این ایس ایف کا سرگرم کارکن تھا۔ بائیں بازو کے سیاسی نعروں کے جلو میں جب پیپلزپارٹی مقبول ہوئی تو قیوم خوگانی پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ بی بی بینظیر بھٹو کی قیادت میں جب 1985ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو کارکنوں کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے جن نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں ملیں ان میں قیوم خوگانی بھی شامل تھے۔ انہیں انٹیلی جنس بیورو (IB) میں افسری مل گئی۔ وہ ترقی کرتے کرتے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آئی بی ہو گئے۔ ہر وقت ہنستا مسکراتا خوگانی کسی طرح بھی افسر نہیں لگتا تھا۔ احباب کا کہنا تھا کہ اس کا منہ اللہ میاں نے بنایا ہی ہنسنے کے لئے ہے۔ ہیوی بائیک کا شوقین یہ افسر احباب کی محفلوں کی جان تھا۔ اسے بھی جون میں کورونا ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے گزشتہ ہفتے اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔ ہر وقت ہنسنے ہنسانے والا اہل ملتان کو رلا گیا۔ عمر 57 سال تھی۔
ملتان کی روایتی موروثی سیاست میں ڈینٹ ڈالنے والے ملک صلاح الدین ڈوگر تھے جو ملتان کے میئر، ایم پی اے اور سینئر رہے۔ ان کا ایک بھائی ملک لیاقت ڈوگر ایم این اے بنا۔ بیٹا ملک عامر ڈوگر اس وقت ملتان سے ایم این اے ہے جس نے ملکی سیاست کے ایک بڑے نام جاوید ہاشمی کو شکست دی ان کا دوسرا بھائی ملتان کا میئر بھی بنا۔ اب بھی ایک سیاسی خانوادہ ہے جس نے موروثی کی بجائے عوامی خدمت کی سیاست کو جاگیرداروں کے اور نوابوں کے علاقے میں متعارف کرایا۔ اسی خانوادے کے سابق ایم این اے ملک لیاقت ڈوگر بھی اسی ماہ کورونا میں مبتلا ہوئے۔ قرنطنیہ بھی کیا۔ علاج بھی کرایا۔ مگر بلا وا آ گیا اور وہ اپنے چاہنے والوں کو سوگوار کر گئے۔ اس خاندان کی شہرت عوامی خدمت کے ساتھ ساتھ یار باشی کی بھی ہے۔ جرأت اور دلیری ان کا وصف اور ساتھ نبھانا ان کی روایت ہے۔ لیاقت ڈوگر کی رحلت ایک خاندان ہی نہیں پورے حلقہ احباب کے لئے غم و اندوہ کا باعث ہے۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب، قیامت کا بھی ہوگا کوئی دن اور؟
ٌٌ( بشکریہ : روزنامہ پاکستان )