کیرزما کا طلسم صرف کھیل اور کھلاڑیوں اور فن اور فنکاروں تک محدود نہیں ہوتا۔ امریکی ادب کے بے مثال افسانہ نگار اور ناولسٹ ارنیسٹ ہیمنگوے کو انتظامیہ کی طرف سے ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ اپنے سفری پروگرام کو حتی الامکان مخفی رکھیں۔ ہیمنگوے جب بھی سفرکرتے تھے لوگ دیوانہ وار ان کو گھیر لیتے تھے۔ ان کو دیکھنے، ان سے ملنے، ان سے آٹو گراف لینے کے لیے اتنی بڑی تعداد میں جمع ہوجاتے تھےکہ ائیر پورٹس،ریلوے اسٹیشنز، ٹرمینلز، شاپنگ مالز کے اپنے ٹائمنگز اور امور ابتر ہوجاتے تھے۔ اپنے ہاں، میں نے احمد فراز اور عابدہ پروین کا کیرزما دیکھا ہے۔ ایسی کشش کہ لوگ جوق درجوق ان کے پاس کھنچے چلے آتے تھے۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ہر شعبے میں کیرزماتی لوگ ہوتے ہیں۔ لوگ ان کو بے انتہا پسند کرتے ہیں۔ ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ ؎
کیرز ماخدادادشے ہے۔ اس کا آپکی کارکردگی یعنی پرفارمنس پر انحصار نہیں ہوتا، آپ کی کارکردگی آپ کے کیرزما کا ایک جز تو ہوسکتی ہے، مگر مکمل طور پر آپ کے کیرزما کا سبب نہیں ہوتی۔
عمران خان جب دیگر دس کھلاڑیوں کے ساتھ ایک ٹیم میں کھیلتے تھے، تب، اسی دور میں، جہانگیر خان تن تنہا اسکوائش کے کھیل کے بے تاج بادشاہ مانے جاتے تھے۔ عمران خان انیس سوبانوے کا ورلڈ کپ جیتے تھے۔ وہ عمران خان کے اکیلے کا کارنامہ نہیں تھا۔ وہ ٹیم کے گیارہ کھلاڑیوں کا کارنامہ تھا۔ اگر میں یادداشت کے ہاتھوں دھوکہ نہیں کھا رہا، مجھے یاد پڑتا ہے کہ جہانگیر خان بیس مرتبہ ورلڈ چیمپئن شپ جیتے تھے، وہ بھی تن تنہا۔اکیلے سر۔ وائے قسمت! کیرزما کا ہما عمران خان کی قسمت میں لکھا تھا۔ بیس بائیس برس ورلڈ چیمپئن رہنا مذاق، یا اتفاق کی بات نہیں ہے۔ کرکٹ دس یا بارہ تیرہ ملکوں کا کھیل ہے۔
اسکوائش دنیا کے پچاس سے زیادہ ملکوں میں کھیلی جاتی ہے۔20 مرتبہ دنیا کے چیمپئن جہانگیر خان گھر سے نکلتے تو جذباتی اور جنونی چاہنے والوں کے بے قابو ہجوم کے نرغے میں نہیں آتے تھے۔ٹریفک جام نہیں ہوتا تھا۔ دور سے لوگ انکو ائیرپورٹ اور شاپنگ مالز میں دیکھتے تھے اور زیادہ سے زیادہ ہاتھ ہلا دیتے تھے۔ دیوانہ وار ان پر اپنی چاہت کا ہلہ نہیں بولتے تھے۔
جہانگیر خان بے مثال عزت، احترام اور شہرت کے مالک تھے۔ اگر کبھی تمام کھیل اور کھلاڑیوں کو ملاکر پاکستان کی تاریخ میں ایک اعلیٰ کھلاڑی کی نشاندہی کی جائے تو جہانگیر خان سے بڑا معتبر اور غیر معمولی کھلاڑیSportsmanپوری تاریخ میں اور کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ مگر کیرزما کچھ اور ہے۔ کیرزما کے حامل کھلاڑی کا خوبروHandsomeہونے سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ فضل محمود سے زیادہ خوبرو اور خوش روکھلاڑی ہم نے آ ج تک نہیں دیکھا۔ ان کی شخصیت اور انفرادیت دیکھ کر لوگ دنگ رہ جاتے تھے۔ کیرزما کا انحصار آپ کی شخصیت اور خوبرو ہونے پر نہیں ہے۔ اس لحاظ سے عمران خان اپنے کزن ماجد خان سے زیادہ اچھے کھلاڑی اور ہینڈسم یعنی وجیہہ نہیں تھے، اور نہ اب تک ہیں۔ عمران خان اپنی بول چال میں ماجد خان جیسے باوقار دکھائی نہیں دیتے۔ مگر کیا کیجئے کہ کیرزما عمران خان کے حصے میں آیا، ماجد خان کے حصے میں نہیں۔
ہم سب میں مثبت اور منفی رویے ہوتے ہیں۔ ایک قابل،لائق اور ذہین شخص کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے منفی رویوں کو اپنے مثبت رویوں پرحاوی ہونے نہیں دیتا۔ یہ اعلیٰ شخص کا وصف ہوتا ہے۔ کیرزماکا طلسم اگر کسی کے سرچڑھ کربولنے لگے، توپھر ایسا شخص آپےمیں نہیں رہتا۔ وہ اپنے منفی اور مثبت رویوں میں توازن نہیں رکھ سکتا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ شخص گھمنڈی، خودسر، مغرور، خودپرست اور اپنے آپ کو اعلیٰ اور دیگر لوگوں کو ادنیٰ سمجھنے لگتا ہے۔ اور پھر وہ شخص اپنے لیے، اپنی ذات کے لیے اور اپنے فدائیوں کے لیے مصیبت کا باعث بن جاتا ہے۔ عزت اور شہرت کو منصبی ذمہ داری سمجھنے کی بجائے اسے ذاتی اور سطحی مفادات حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کراپنے زوال کے اسباب جمع کرتا ہے۔
کچھ کرشماتی لوگوں کو طاقتور لوگ اور اقتدار کے دھنی برباد کردیتے ہیں۔ وہ کرشماتی کھلاڑی کی شہرت کو اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اقتدار کے دھنی یاتو بےخبر ہوتے ہیں، یاپھر اس بات کو قطعی اہمیت نہیں دیتے کہ کسی ایک شعبہ میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے شخص کی شہرت کسی دوسرے شعبہ میں کارگر ثابت نہیں ہوتی۔پاکستان میں کھیلوں کی تاریخ کے سب سے بڑے کھلاڑی جہانگیر خان، فاسٹ بالر عمران خان کی طرح کرشماتیCharismaticنہیں تھے۔ ورنہ ان کو بھی پاکستان کی خستہ حال سیاست میں دھکیل دیتے۔ ایک مشہور ڈاکٹر کو آپ ملک میں انجینئرنگ کو فروغ دینے کے لیے بروئے کار نہیں لاسکتے۔ تاریخ کے پروفیسر کوآپ ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ اور ترقی کے لیے استعمال نہیں کرسکتے۔ آپ ایک شعبہ کے نامور شخص سے اس کی شہرت سے قطعی مختلف شعبہ کو بہتر بنانے کے لیے استفادہ نہیں کرسکتے۔ آپ اس شخص کو عمران خان کی طرح ضائع کردیں گے۔اچھے خام مال سے آپ اچھے نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ کمزور اور ناقص خام مال سے ناقص کمتر اور مایوس کن نتائج آپ کے حصے میں آتے ہیں۔ اچھے ذہین اور پڑھے لکھے لوگ اچھے لوگوں کو ووٹ دیکر حکومت پرمامور کرتے ہیں۔ آپ اپنے خام مال یعنی عام آدمی کو پڑھائیں، لکھائیں، تعلیم وتربیت دیں، ان کی آبیاری کریں۔ذہین اور پڑھے لکھے لوگ، ذہین اور پڑھے لکھے حکمران کا انتخاب کرتے ہیں۔
( بشکریہ : روزنامہ ۔۔ جنگ )
فیس بک کمینٹ