سپریم کورٹ کے دورکنی بنچ نے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کے خلاف توہین عدالت کا معاملہ فل کورٹ کو ریفر کرنے کے بارے میں فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں قائم بنچ میں جسٹس عقیل احمد عباسی بھی شامل ہیں۔ بنچ نے اپنے سامنے پیش کیا گیا ایک مقدمہ آئینی بنچ کو منتقل کرنے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کی خود مختاری اور ججوں کی آزادی کا معاملہ ہے لیکن درحقیقت یہ سپریم کورٹ کے ججوں میں اختیارات کے حصول اور سیاسی بنیادوں پر پیدا ہونے والے اختلافات کا معاملہ ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے وقت سینئر ترین جج تھے اور قاعدے کے مطابق انہیں ہی ملک کا اگلا چیف جسٹس بننا تھا۔ تاہم یہ وقت آنے سے چند روز پہلے پارلیمنٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرلی جس کے تحت سینارٹی کے اصول کی جائے خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں تین سینئر ترین ججوں میں سے چیف جسٹس مقرر کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس آٹھ رکنی کمیٹی میں پارلیمنٹ کے چار ارکان بھی شامل ہیں۔ اس تبدیلی کی وجہ سے جسٹس منصور علی شاہ سینارٹی کے باوجود چیف جسٹس نہیں بنائے گئے بلکہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو آئیندہ تین سال کے لیے چیف جسٹس بنا دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اس ہزیمت کے باوجود جج کے عہدے سے استعفی ٰ دے کر اپنی نارضی اور سینارٹی کے اصول سے وابستگی کا اعلان کرنے سے گریز کیا۔ ایک جونئیر جج کے چیف جسٹس بننے کے باوجود وہ بدستور سپریم کورٹ کے جج کے طور پر کام کررہے ہیں۔ البتہ اس کے ساتھ ہی وہ 26 ویں آئینی ترمیم کو منسوخ کرانے کی خواہش کا برملا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ اسی تناظر میں پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے آج ہی ایک بیان میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے علاوہ کسی ادارے کی طرف سے 26 آئینی ترمیم کے خلاف فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ اشارہ سپریم کورٹ کے بعض ججوں کی طرف سے اس ترمیم کے حوالے سے غیر ضروری سرگرمی دکھانے اور کسی بھی طرح اسے منسوخ کرنے کی خواہش کا اظہار کی طرف کیا گیاہے۔
جسٹس منصور علی شاہ 26 ویں آئینی ترمیم کا جائزہ لینے کے لیے فل کورٹ اجلاس بلانے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں لیکن اس مقصد کے لیے قائم ججز کمیٹی نے اس تجویز کو ماننے کی بجائے یہ معاملہ آئینی بنچ کے پا س بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئینی ترمیم کے تحت آئینی معاملات کا فیصلہ کرنے کے لئے سات رکنی بنچ تشکیل دیا جاچکا ہے اور جسٹس امین الدین خان اس کےسربراہ بنائے گئے ہیں۔ اس کے باوجود جسٹس منصور علی شاہ کے دل میں تازہ ترین آئینی ترمیم کے حوالے سے خلش موجود ہے جس کا اظہار مختلف طریقوں سے سامنے آتا رہا ہے۔
گزشتہ دنوں آئینی نوعیت کا ایک معاملہ غلطی سے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں قائم ایک بنچ میں بھیج دیا گیا۔ بعد میں کمیٹی کے سامنے اس غلطی کی نشاندہی کی گئی اور کمیٹی نے آئینی اصول کے تحت یہ معاملہ اس بنچ سے واپس لے کر آئینی بنچ کو بھیج دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ بھی کمیٹی کے رکن تھے لیکن وہ بوجوہ کمیٹی کے اس اجلاس سے غیر حاضر رہے ۔ بعد میں بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے انہوں نے سختی سے یہ سوال اٹھایا کہ کوئی رجسٹرار کیسے ایک بنچ کے سامنے زیر غور معاملہ کو وپس لے سکتا اور ایک عدالتی حکم کے تحت مقرر کی گئی تاریخ پر کاز لسٹ میں اس کیس کو اسی بنچ کے سامنے کیوں پیش نہیں کیا گیا۔ اصولی طور سے یہ کوئی بڑا دھماکہ نہیں تھا۔ ججز کمیٹی ہی نے غلطی سے ایک آئینی نوعیت کا معاملہ آئینی بنچ کی بجائے عام بنچ میں بھیج دیا اور اسی کمیٹی نے بعد میں اس فیصلہ کی تصحیح کرلی۔ البتہ جسٹس منصور علی شاہ اس فیصلے کو توہین عدالت قرار دے کر عدالت عظمی کی آزادی و وقار کا سوال بنا بیٹھے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت کو جب یہ لگتا ہے کہ کسی بنچ سے اس کے خلاف فیصلہ آئے گا تو اسے تڑوا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ رائے دیتے ہوئے وہ خود اپنے ساتھی ججوں پر الزام تراشی کا موجب بن رہے ہیں جو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم کمیٹیوں میں بیٹھ کر بنچ بنانے کے لیے آئینی تقاضوں کے مطابق فیصلے کرنے کے مجاز ہیں۔ سپریم کورٹ کا کوئی بنچ کسی حکومتی حکم کے تحت تشکیل نہیں پاتا۔
سپریم کورٹ کے بنچ پہلے ہی ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کردیا تھا۔ ججوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے عدالتی حکم کے باوجود ججز کمیٹی کے فیصلہ کو نافذ کیا حالانکہ کمیٹی کے فیصلے انتظامی ہوتے ہیں ۔ انہیں عدالتی حکم پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔اس معاملہ پر رائے دینے کے لیے متعدد ماہرین بھی مقرر کردیے گئے۔ آج اسی معاملہ پر غور کرتے ہوئے دو رکنی بنچ نے توہین عدالت کا معاملہ فل کورٹ میں غور کے لیے بھجوانے کا سوال پر اٹھایااور فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ یہ معاملہ ایک انسانی غلطی کا معاملہ تھا اور اسے آئینی بنچ کی بجائے عام بنچ میں بھیج دیا گیا۔ متعلقہ بنچ اس معاملہ پر غور کرتے ہوئے ، کارروائی کرنے اور اگلی تاریخ مقرر کرنے کی بجائے خود بھی یہ نشاندہی کرسکتا تھا کہ اسے آئینی بنچ کے پا س جانا چاہئے لیکن جسٹس منصور علی شاہ کا اصرار ہے کہ ایک بار کوئی کیس بنچ کے سامنے آگیا تو دنیا کی کوئی طاقت اسے واپس نہیں لے سکتی۔
آج کی عدالتی کارروائی کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ کے غصہ کا یہ عالم تھا کہ وہ ساتھی ججوں کو بھی توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ ہمارے پاس توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کا اختیار ہے لیکن چونکہ اس معاملہ میں چیف جسٹس کا دفتر کمیٹی کے رکن سینئر جج شامل ہیں ، اس لیے ہم اس سے گریز کررہے ہیں‘۔ گویا سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ خود اپنے ساتھی ججوں کو توہین عدالت کا نوٹس دینے کا اختیار رکھتے ہیں لیکن اس سے صرف نظر رکرہے ہیں۔ ایسا دعویٰ کرتے ہوئے وہ اپنے تمام تجربہ، قانونی قابلیت اور مہارت کے باوجود یہ فراموش کر بیٹھے کہ سپریم کورٹ کے تمام جج مل کرہی عدالت عظنی بنتی ہے۔ وہ اگر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے لگیں گے تو عدالتی وقار و اعتبار خود ہی منہ کے بل آگرے گا۔ اگر جسٹس منصور علی شاہ دوسرے ججوں کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرسکتے ہیں تو پھر یہ سلسلہ رکے گا نہیں ۔ دوسرے جج بھی موقع کی تاک میں رہیں گےا ور جسٹس شاہ یا کسی دوسرے ایسے جج کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے جس سے انہیں نظریاتی ، قانونی اور عملی اختلاف ہو۔ یوں جج حضرات عوام کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو معتوب کرنے اور سزا دینے کے کام میں مصروف رہیں گے۔ ایسی صورت میں پارلیمنٹ و عوام ضرور یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ جب سپریم کورٹ کے جج ہی ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں تو عوام کو انصاف کہاں سے ملے گا۔ ملک ایسے ججوں کو بھاری بھر کم تنخواہیں اور مراعات کیوں فراہم کرتا ہے؟
آج عدالتی کارروائی کے دوران اٹارنی جنرل اور دو معاون وکلا نے ججوں کی توجہ اس پہلو کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی کہ نہ تو انہیں اس معاملہ پر فل کورٹ کی درخواست کرنے کا حق ہے اور نہ ہی کوئی عدالتی بنچ ججز کمیٹی کے اختیار کر چیلنج کرسکتا ہے کیوں کہ یہ کمیٹیاں پریکٹس اینڈ پرسیجر ایکٹ اور آئینی ترمیم کے تحت قائم ہوئی ہیں ۔ فل کورٹ اس ایکٹ کی توثیق کرچکی ہے ، اس لیے ججز کمیٹی کے فیصلے محض انتظامی نوعیت کے نہیں کہے جاسکتے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے آج کی کارروائی کے دوران اس حوالے سے دو سوال اٹھائے ۔ ایک: کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم دو کمیٹیاں ایک بار کسی بنچ میں کیس فکس کرنے کے بعد اسے واپس لے سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملہ میں آئین سے متعلق سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے تھے۔ دوئم: کیا یہ کمیٹیاں ایک انتظامی فیصلےکے ذریعے ایک عدالتی حکم کو نظر انداز کرسکتی ہیں۔ کیوں کہ اس حکم میں ایک خاص کیس میں اگلی تاریخ مقرر کردی گئی تھی۔
اس معاملے میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا مؤقف تھا کہ یہ بنچ چونکہ جائز طور سے قائم نہیں ہؤا تھا، اس لیے یہ نہ تو توہین عدالت کی کارروائی کرسکتا ہے اور نہ ہی فل کورٹ بنانے کی درخواست کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال میں ججوں کو یہ معاملہ چیف جسٹس کو بھیجتے ہوئے ان سے پوچھنا چاہئے کہ کیا اس میں توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح اگر کچھ جج یہ سمجھتے ہیں کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں کوئی کمی ہے تو وہ فل کورٹ کا انتظامی اجلاس بلا کر اس پر غور کرسکتے ہیں لیکن جوڈیشل ریویو نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے پہلے عدالت کے معاون احسن بھون نے بھی مؤقف اختیار کیا تھا کہ کوئی معاملہ کسی جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کو نہیں بھیجنا چاہئے۔ زیر بحث معاملہ پر آئینی بنچ ہی غور کرسکتا ہے۔ اس لیے کمیٹی نے درست طریقے سے یہ معاملہ آئینی بنچ کو بھیجا ہے۔ اگر ججوں کو کسی معاملہ میں کوئی اعتراض ہے تو انہیں معاملہ چیف جسٹس کو ریفر کرنا چاہئے تاکہ متعلقہ کمیٹی ان اعتراضات پر غور کرسکے۔
احسن بھون نے مزید کہا کہ یہ عدالتی احترام کا معاملہ نہیں ہے کیوں کہ ہر شخص اپنی مرضی کی عدالت، پارلیمنٹ اور فیصلے چاہتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ججوں کی کمیٹی اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کیا گیا انتظامی فیصلہ تبدیل کرتی ہے تواسے آئینی تحفظ حاصل ہے کیوں کہ فل کورٹ اس ایکٹ کی توثیق کرچکی ہے۔ موجودہ صورت حال میں ججز کمیٹی کے فیصلوں کو مختلف انتظامی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور بنچ کو بھی اس پر خود کارروائی کرنے کی بجائے یہ سوال کمیٹی کے سامنے اٹھانا چاہئے کہ کیا جوڈیشل آرڈر فیصلہ کے لیے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ بنچ بھی کمیٹی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت ہی قائم کیا تھا۔
دوسرے عدالتی معاون خواجہ حارث احمد نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت بنچ بنانے کا اختیار کمیٹیوں کے پاس ہے۔ اس معاملہ میں توہین عدالت کا نفاذ نہیں ہوتا۔ کمیٹی نے آئین کے تحت حاصل مینڈیٹ کے ذریعے بنچ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسے جوڈیشل حکم کو انتظامی فیصلہ سے تبدیل کرنے کا نام نہیں دیاجاسکتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ بے احتیاطی کا معاملہ ہے جو کسی سے کہیں بھی سرزد ہوسکتی ہے۔اٹارنی جنرل اور ماہرین کی آرا کے باوجود ابھی دو رکنی بنچ نے اس معاملہ پر اپنا فیصلہ جاری نہیں کیا ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ایک معولی وقوعہ پر جیسے پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کی ہے، اس کی روشنی میں اس فیصلہ میں ججوں کے سخت ریمارکس بھی سامنے آسکتے ہیں۔
تاہم جسٹس منصور علی شاہ سمیت عدالت عظمی کے تمام معزز جج حضرات کے علم میں ہونا چاہئے کہ ایک دوسرے کو مطعون کرکے وہ کسی دوسرے کی بجائے خود اسی ادارے کے وقار و حرمت کو نقصان پہنچائیں گے جس کی آزادی کے نام پر گزشتہ ایک ہفتے سے عدالتی وقت اور صلاحیت صرف کرتے ہوئے ایک ہنگامہ برپا کیا گیا ہے۔ اسی لیے ماہرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کے جج اصولی لڑائی کی بجائے اپنے اختیار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس لڑائی میں سیاسی ترجیحات اور ذاتی مفادات کی آلائش محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہ طریقہ جاری رہا تو ملک میں انصاف کے سب سے بڑے مرکز کا مستقبل تابناک نہیں ہوگا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ