اسلام آباد : وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ حکومت اب ملک ریاض پر ہاتھ ڈالے گی اور انھیں متحدہ عرب امارات سے واپس لائے گی۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب میں انھوں نے پراپرٹی کے شعبے سے منسلک معروف پاکستانی ملک ریاض کے بارے میں تفصیلی سے گفتگو کی۔
یاد رہے کہ منگل کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے عوام الناس کو ’تنبیہ‘ کی تھی کہ وہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے دبئی میں شروع ہونے والے نئے پراجیکٹ میں سرمایہ کاری نہ کریں کیونکہ ایسے کسی بھی اقدام کو ’منی لانڈرنگ‘ تصور کیا جائے گا۔تاہم ملک ریاض کا کہنا ہے کہ نیب کی پریس ریلیز بلیک میلنگ کا نیا مطالبہ ہے مگر وہ نہ تو کسی کے خلاف گواہی دیں گے اور نہ ہی کسی کے خلاف استعمال ہوں گے۔دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک پیغام میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے یہ درخواست بھی کی ہے کہ وہ ’بتائیں کہ گذشتہ 30 برسوں میں کون کون سے ججوں، جرنیلوں اور سیاستدانوں نے اُن سے پیسے اور دیگر مالی فوائد حاصل کیے۔‘
وزیر دفاع نے کہا کہ میں نے پہلی بار 1997 میں بحریہ ٹاؤن کے حلاف آواز آٹھائی اور پوچھا کہ اس سے نیوی کو کیا فائدہ ہو گا لیکن مجھے اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ مشرف کے مارشل لا میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہا اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ تیس سال سے یہ سلسلہ چلتا رہا اور اس میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے 190 ملین پاونڈ کا مسئلہ اٹھایا تو ملک ریاض نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ سب کچھ قانونی ہوا ہے میں آپ کے پاس اپنے وکیل کو بھجواتا ہوں۔وزیر دفاع نے کہا کہ زمینوں کی خریداری اور اپررولز میں آپ کو سقم دکھائی دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ شفاف ٹرانزیکشنز نہیں ہیں اور قومی سطح پر اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جب میڈیا اور سیاست دان یا عدالتیں ان کے ساتھ مل جائے تو یہ ایک جرم کی اعانت بن جاتی ہے۔خواجہ آصف نے الزام عائد کیا کہ ’ان کے کاروبار میں جو آہستہ آہستہ سامنے آنا شروع ہوئے ہیں وہ ایک کاروبار نہیں تھا، میں کچھ چیزیں نہیں بتانا چاہتا ان پر پردہ ہی رہے۔ پریس کانفرنس میں انھوں نے مشرف دور کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جن لوگوں سے ہمارے ملک میں دہشت گردی کی بنیاد چلی ان پر بھی انھوں نے پیسے لگائے انھیں اپنے داہنے ہاتھ پر رکھنے کے لیے۔‘وزیر دفاع نے واضح کیا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ بات رک جائے گی انھیں کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا تو ایسا نہیں ہے۔’ان کی پاکستان واپسی کے لیے یو اے ای کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے، کوئی بھی مجرم یا ملزم جس کا یہاں آنا ضروری ہو انھیں ایک کارروائی کے ساتھ یہاں لایا جا سکتا ہے۔‘
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ’ریاست کا پیسہ ملک ریاض کے اکاؤنٹ میں کیسے چلا گیا، کوئی بتا دے پی ٹی آئی بتا دے، عمران خان بتا دیں یا ملک ریاض بتا دیں۔‘انھوں نے صحافیوں سے کہا کہ کئی سالوں کے دوران ٹی وی پروگرامز میں میرے ملک ریاض کے حوالے سے موقف کو کاٹا گیا۔انھوں نے الزام عائد کیا کہ میڈیا ملک ریاض کے جرائم میں شریک ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں میڈیا مالکان کو کہتا ہوں کہ دوہرا معیار اور دوغلا پن مت اپنائیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر میڈیا نے کوریج کی تو میں پھر دوسری قسط لے کر آؤں گا۔
( بشکریہ : بی بی سی )
فیس بک کمینٹ