لاہور ہائی کورٹ نے ملتان کی بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے سابق لیکچرر کی سزائے موت کے خلاف اپیل سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہیں 2013 میں توہین مذہب کے الزامات میں گرفتار کرنے کے بعد 2019 میں دیگر سزاؤں کے علاوہ موت کی سزا دی گئی تھی۔ اب 6 سال بعد اس یک طرفہ سزا کے خلاف اپیل سماعت کے لیے مقرر ہوئی ہے۔ جنید حفیظ کا معاملہ ملک میں توہین مذہب کے قوانین اور اس بارے میں پھیلائی گئی جذباتیت کا ایک کلاسیکل نمونہ ہے جس میں ملزم کو نہ تو صفائی کا موقع ملتا ہے اور نہ ہی اس کے مؤقف پر غور کیا جاتا ہے۔ جنید حفیظ کے معاملہ میں تو کسی وکیل کو ان کا دفاع کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ 2014 میں ان کی طرف سے پیش ہونے پر ممتاز وکیل اور انسانی حقوق کے علمبردار راشد رحمان کو ان کے دفتر میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ کوئی اس قتل کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکا لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ قتل کن عناصر کے اشارے پر کیا گیا تھا۔ ملک کے انتہا پسند مذہبی عناصر توہین مذہب کے معاملہ کو بنیاد بنا کر انتہا پسندی اور شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں۔ کوئی بھی شخص کسی بھی وجہ سے کسی شخص پر توہین مذہب کا الزام عائد کرسکتا ہے۔ پھر نہ تو قانون اس کی حفاظت کرتا ہے اور نہ ہی زیریں عدالت کا کوئی جج اسے انصاف دینے کا حوصلہ کرسکتا ہے۔ ایسے معاملات میں پولیس اور زیریں عدالتیں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے خود انتہا پسند عناصر کے جبر سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں میں انصاف کے لیے رسائی صرف کسی عالمی دباؤ یا انسانی حقوق تنظیموں کی مستعدی کی وجہ سے ہی ممکن ہوتا ہے ورنہ کوئی بھی شخص جیل ہی میں ایڑیا رگڑ رگڑ کر مرجاتا ہے۔ توہین مذہب کے قوانین میں سابق فوجی آمر ضیاالحق کے زمانے میں ترامیم کی گئی تھیں۔ اب پورا پاکستان اس بات پر متفق ہے کہ ضیا کا عہد انسانی حقوق کی پامالی اور جمہوری نظام کی خرابی کے حوالے سے ملکی تاریخ کا بدترین دور تھا لیکن اس کے باوجود ان افسوسناک، غیر منصفانہ اور غیر انسانی قوانین کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں ہوسکا۔ صرف یہی نہیں کہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف کسی قانون میں ترمیم نہیں ہوئی یا اسے واپس نہیں لیا جاسکا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اب ان قوانین کے خلاف بات کرنا بھی ایسا ہی جرم بنا دیا گیا ہے گویا یہ بھی توہین مذہب ہے۔ اس کی بہت نمایاں مثال سابق گورنر سلمان تاثیر کا قتل تھا۔ انہیں جنوری 2011 میں اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں ان ہی کے ایک سرکاری محافظ ممتاز قادری نے قتل کردیا تھا۔ سلمان تاثیر کا واحد قصور یہ تھا کہ انہوں نے ملک میں توہین مذہب کے قوانین پر نظر ثانی کرنےکی بات کی تھی اور واضح کیا تھا کہ یہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین ہیں، انہیں کسی مقدس صحیفے کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ ان پر نظر ثانی ہونی چاہئے تاکہ انسانوں کے ساتھ انصاف کے مطابق سلوک روا رکھا جاسکے۔ موجودہ بلاسفیمی قوانین کے تحت کسی شخص کو گرفتار کرنے کے بعد اسے ضمانت حاصل کرنے کا حق بھی حاصل نہیں رہتا۔ حالانکہ دنیا بھر میں مسلمہ قانونی اصول کے مطابق کوئی شخص اس وقت تک مجرم قرار نہیں دیاجاسکتا جب تک اس پر الزام ثابت نہ ہوجائے۔ لیکن پاکستان کے توہین مذہب کے قوانین کے مطابق جس شخص پر مذہب کی توہین کا الزام عائد ہوجائے، اس کی زندگی درحقیقت اسی روز ختم ہوجاتی ہے۔ یا تو وہ ساری زندگی جیل میں بند رہتا ہے، یا کوئی بہت زیادہ ’غیرت مند‘ مسلمان اسے اچانک قتل کرکے خود اپنے لیے جنت پکی کرانے کا عزم کرسکتا ہے اور یا اسے موت کی سزا دے کر پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں متعلقہ شخص محض ناقص اعداد و شمار کا حصہ بن کر رہ جاتا ہے۔ نہ کوئی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا سکتا ہے اور نہ ہی یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ معتوب کیے گئے شخص کی ساری زندگی ایک اچھے مسلمان کے طور پر گزری تھی۔ اس کے خلاف کسی بدنیتی یا غلط فہمی کی بنا پر الزامات بھی عائد ہوسکتے ہیں۔ توہین مذہب کے متعدد معاملات میں ثابت ہوچکا ہے کہ جائداد کے جھگڑے یا کسی دوسری ذاتی رنجش کی بنیاد پر مخالفین کسی شخص کو توہین مذہب کے مقدمہ میں پھنسا کر اپنا ’مقصد‘ حاصل کرلیتے ہیں۔ ملک کا قانون اور نظام انصاف محض خاموش تماشائی بن کر ایک بے گناہ کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے کا اہتمام کرتا ہے۔ اسی قسم کا وقوعہ شیخو پورہ کی آسیہ بی بی کے ساتھ پیش آیا تھا۔ ایک نجی تنازعہ کے بعد ان پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا۔ آسیہ بی بی نے پورا وقت اس الزام سے انکار کیا لیکن پرجوش مذہبی گروہوں، کمزور نظام انصاف، خوفزدہ پولیس اور ججوں نے کسی کی ایک بات نہیں سنی اور اسے 2010 میں موت کی سزا سنا دی گئی۔ اسی خاتون کے بے گناہی کے بارے میں بات کرتے ہوئے سلمان تاثیر نے جو اس وقت پنجاب کے گورنر تھے، یہ کہا تھا کہ ضیا دور کے قوانین پر نظر ثانی ہونی چاہئے تاکہ توہین مذہب کے نام پر ناانصافی کا سلسلہ روکا جاسکے۔ یہ ایک جائز اور مناسب رائے تھی۔ اسلام کا حقیقی پیغام عام کرنے والے یقیناً اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ کسی بھی شہری کو کسی ثبوت بنا اور ناقص اور متعصب گواہوں کی بنیاد پر سزا نہیں دینی چاہئے۔ سلمان تاثیر کی بات بعد میں سپریم کورٹ میں ثابت ہوگئی جب 2018 میں عدالت عظمی نے ناقص شواہد کی بنا پر آسیہ بی بی کو بری کردیا اور بعد میں حکومت نے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ تاہم آسیہ بی بی کی بے گناہی کے بارے میں سوال اٹھانے والے سلمان تاثیر کو ایک مذہبی جنونی نے قتل کیا اور پاکستانی قوم کے لاکھوں لوگوں نے ممتاز قادری کو ہیرو بنا کر سر آنکھوں پر بٹھایا۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ میں اس کے دفاع کے لیے پیش ہوتے رہے حتی کہ سپریم کورٹ میں اس کا جرم ثابت ہونے کے باوجود پھانسی ہونے تک ممتاز قادری کو کسی مذہبی اوتار کا دجہ دیا جاتا رہا۔ اور پھانسی کے بعد اس کا مقبرہ بنا کر عقیدت مندوں کا ہجوم وہاں اپنی دعاؤں کی مقبولیت کے لیے حاضر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سلمان تاثیر اگرچہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر تھے اور ملک پر اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی لیکن ان کی نماز جنازہ ’خفیہ‘ طور سے گورنر ہاؤس میں ادا کرکے انہیں خاموشی سے دفن کردیا گیا۔ کسی لیڈر یا حکومتی نمائیندے کو سلمان تاثیر کی مظلومیت اور بے گناہی کے بارے میں بات کرنے اور توہین مذہب کے قوانین کے متعلق ان کی رائے کو عملی شکل پہنانے کا حوصلہ نہیں ہؤا۔ حالانکہ ان کے ناروا قتل نے بھی ان کی اس بات کا ثبوت فراہم کیا تھا کہ ملک میں مروج توہین مذہب قوانین ناقص اور ان پر عمل کرانے کا مطالبہ کرنے والے خود قانون کا احترام کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اب بھی صورت حال تبدیل نہیں ہوئی۔ اب بھی کوئی سیاست دان کسی بھی مخالف کی پگڑی اچھال سکتا ہے، بے بنیاد الزامات عائد کرسکتا ہے، حتی کی دشنام طرازی کی جاسکتی ہے اور سوشل میڈیا کی طاقت و صلاحیت استعمال کرتے ہوئے ملک کی طاقت ور فوج کے خلاف نت نئے الزامات اور بے ہودہ جملے عام کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن کسی میں یہ حوصلہ نہیں کہ وہ توہین مذہب کے قوانین کے بارے میں کھل کر بات کرسکے۔ یا یہ سوال اٹھایا جائےکہ ان قوانین کو معتدل اور اسلامی تعلیمات کے عین مطابق بنایاجائے تاکہ بے گناہ لوگوں کو غیر ضروری طور سے جیل نہ کاٹنی پڑے یا زندگی سے ہاتھ نہ دھونا پڑیں۔ اس کی بجائے ایسی کوئی بات بجائے خود توہین مذہب شمار کی جانے لگی ہے۔ دلیل کے ساتھ ان قوانین کی کمزوریوں کی نشاندہی کرنے والی اختلافی رائے کو اسلام کی حقانیت پر حملہ کہا جانے لگا ہے۔ یہ صورت حال پیدا کرنے میں ملک کے تمام مذہبی لیڈروں نے یکساں طور سے منفی کردار ادا کیا ہے۔ اسی رویہ کی وجہ سے اب صورت حال اس حد تک شدید اور سنگین ہوچکی ہے کہ کسی شخص پر توہین مذہب کا الزام لگنے کے بعد لوگ موقع پر اکٹھے ہوکر ’فوری انصاف ‘ فراہم کردیتے ہیں۔ ملک میں ایسے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں لیکن نہ تو مذہبی رہنما سماجی نفرت پیدا کرنے کا طرز عمل تبدیل کرنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی سیاست دانوں کو ہوش آتا ہے کہ ملک میں مذہبی شدت پسندی کی کوکھ سے پیدا ہونے والی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے معاشرے کو نارمل بنانے اور ناانصافی کی بنیاد پر نافذ کیے گئے قوانین کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ عقیدہ کو نفرت پھیلانے اور تشدد عام کرنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ 12 سال کے طویل انتظار اور جیل میں تکلیف دہ حالات میں زندگی گزارنے والے جنید حفیظ کی اپیل اب بدھ کو لاہور ہائی کورٹ کا ڈویژن بنچ ئنے گا۔ مروجہ عدالتی نظام میں یہ عین ممکن ہے کہ ایک سماعت کے بعد کسی عذر کی بنا پر اس اپیل پر سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی جائے۔ لیکن صرف قانون کی بالادستی اور انصاف فراہم کرنے کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک میں تشدد اور مذہبی منافرت کا رجحان ختم کرنے کے لیے بھی اہم ہے کہ ہماری اعلیٰ عدالتیں جنید حفیظ جیسے مظلوموں کی درخواستوں کی سنجیدگی سے سماعت کریں اور مقامی سطح پر ہونے والی ناانصافی کا خاتمہ کریں۔ ملک میں جب تک مذہبی انتہاپسندی اور عقیدے کے نام پر تشدد عام کرنے اور جھوٹ بول کر لوگوں کو ایذا پہنچانے کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا معاشرے میں شدت پسندی اور من مانی کے موجودہ رویہ کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔ لاہور ہائی کورٹ جنید حفیظ کو انصاف دےکر صرف ایک بے گناہ تعلیم یافتہ انسان کے لیے ہی سہولت پیدا نہیں کرے گی بلکہ یہ شدید رویوں کو مسترد کرنے کا ایک ایسا اشارہ ہوگا جس کی بنیاد پر سرکش قوتوں کی حوصلہ شکنی میں آسانی ہوسکتی ہے۔ ( بشکریہ: کاروان ۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ