اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ہی ایک ساتھی جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کو عدالتی امور کی انجام دہی سے روک دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے یہ حکم جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری مبینہ طور پر جعلی ہونے سے متعلق درحواست کی سماعت کے دوران سنایا۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ چونکہ مبینہ جعلی ڈگری کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ہے اور ان کے خلاف اس ضمن میں ریفرنس بھی دائر کیا گیا ہے اس لیے جب تک سپریم جوڈیشل کونسل اس ریفرنس کا فیصلہ نہیں کرتی اس وقت تک جسٹس طارق محمود جہانگیری کسی مقدمے کی سماعت نہیں کرسکتے۔
اس عدالتی حکم کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا ڈیوٹی روسٹر جاری کردیا گیا ہے اور اس روسٹر کے مطابق جسٹس طارق محمود جہانگیری کا نام تمام بینچز سے نکال دیا گیا ہے۔
عدالت نے اس معاملے میں دو عدالتی معاونین کو بھی مقرر کیا ہے جن میں سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور بیرسٹر ظفر اللہ شامل ہیں۔ اس مقدمے میں عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کردیا ہے۔
درخوست گزار میاں داؤد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کے سابق جج سجاد علی شاہ کی تعیناتی سے متعلق سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کا فیصلے کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل تو کارروائی کرسکتی ہے لیکن اس کے خلاف آئین کے ارٹیکل 199 کے تحت درخواست دائر کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اس درخواست پر اعتراض لگایا گیا تھا جوکہ منگل کے روزاس عدالتی کارروائی کے دوران یہ اعتراض ختم کردیا گیا۔
واضح رہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس چھے ججز میں شامل تھے جنھوں نے سنیارٹی کے معاملے پر جسٹس سرفراز ڈوگر کو لاہور ہائی کورٹ سے اور دیگر دو ججز کو بلوچستان اور سندھ ہائی کورٹ سے لانے کی مخالفت کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اس درخواست کو کثرت رائے سے مسترد کردیا تھا تاہم اس فیصلے کے خلاف ان ججز نے نظر ثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری کے خلاف درخواست میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کراچی کے جس کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے وہ جعلی ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل بھی رہ چکے ہیں۔
ادھر ایمان مزاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے رویے کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے مقدمے کی سماعت کے دوران نہ صرف ان کی تضحیک کی بلکہ انھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔ ایمان مزاری نے کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے خلاف بھی اس معاملے کو دیکھنے والی کمیٹی کو چیف جسٹس کے اس رویے کے خلاف درخواست دی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی سے ہی تین ججز پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی تھی اور اس تین رکنی کمیٹی میں جسٹس اعجاز اسحاق، جسٹس سردار ارباب طاہر اور جسٹس رفعت سمن شامل ہیں۔
بعدازاں چیف جسٹس کی منظوری سے ہی کمیٹی کو تبدیل کردیا گیا ا ور جسٹس انعام امین منہاس کو اس کمیٹی کا سربراہ مقرر کردیا ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد کے ایک وکیل عدنان اقبال نے جبری گمشدگیوں کے مقدمات کی پیروی کرنے والی وکیل ایمان مزاری کا لائسنس منسوخ کرنے کے لیے اسلام آباد بار کونسل میں درخواست دایر کی ہے۔
اس درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایمان مزاری نہ صرف مختلف اداروں میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کی تضحیک کرتی ہیں بلکہ ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا لٰہذا ان کا بطور وکیل لائسنس منسوخ کیا جائے۔
( بشکریہ : بی بی سی )