مناسب بات تو یہی ہے کہ اگر کوئی بندہ مصیبت کا شکار ہو یا مشکل میں پھنسا ہو تو اس پر طعنہ زنی کرنے کے بجائے اسے اس وقت مصیبت سے نکالنا اور اس کی مشکل کا کوئی حل تلاش کرنا چاہیے۔ لیکن اگر معاملہ کسی ایسی مشکل یا مصیبت سے جڑا ہوا ہو جو خود کی پیدا کردہ ہو تو آئندہ کے لیے اس کا حل نکالنا بھی بہت ضروری ہے تاکہ مستقبل میں اس سے نجات حاصل کی جا سکے۔ جنوبی پنجاب میں کوہ سلیمان کے آس پاس اور سوات میں دریائے سوات کے کناروں پر ہونے والی ہولناک تباہی میں بہت بڑا حصہ ہمارا اپنا ہے اور اگر ہم قدرت کے راستوں میں دیواریں کھڑی کرنے کی کوشش نہ کرتے تو یہ تباہی بہت حد تک کم کی جا سکتی تھی کہ قدرت سے لڑائی کا نتیجہ کبھی بھی بنی نوع آدم کے لیے فتح کی صورت میں سامنے نہیں آتا۔
اللہ کا ایک نظام ہے اور میرے مالک نے زمین تخلیق کرتے وقت اس کی ایک خاص ساخت ترتیب دی اور قدرت کا یہ قائم کردہ نظام ایک توازن کے ساتھ لاکھوں کروڑوں سال سے بڑی سہولت کے ساتھ چلتا آ رہا ہے۔ اس طے شدہ نظام میں بھی اونچ نیچ اس کی مرضی اور منشا سے ہوتی رہتی ہے اور غیرمعمولی صورتحال میں اس توازن میں گڑ بڑ ہو جاتی ہے مگر قدرت کا نظام اس ساری گڑ بڑ کو بھی اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت رکھتا ہے جیسے دریا میں شدید طغیانی اور سیلاب آئے تو پانی دریا کے کناروں سے باہر نکل کر اردگرد پھیل جاتا ہے لیکن یہ بھی قدرت کا ہی نظام ہے کہ یہ پانی دریا کے متوازی بنے ہوئے قدرتی راستوں سے ہو کر دوبارہ دریا میں شامل ہو جاتا ہے لیکن اگر ہم دریا کے متوازی بنے ہوئے ان قدرتی راستوں کو بند کر دیں‘ ان پر تعمیرات کر لیں یا ان کی ساری قدرتی ترتیب الٹ پلٹ کر دیں تو پھر اس طغیانی یا سیلاب کے باعث ہونے والی تباہی اور بربادی اس سے کہیں خوفناک ہوتی ہے جو ان قدرتی راستوں کے رواں ہونے کے نتیجے میں ہوتی تھی۔
لاکھوں کروڑوں سال سے چلنے والے ندی‘ نالے اور دریا‘ ان کے معاون چشمے‘ جھیلیں‘ گلیشیرز سے پگھلنے والی برف اور آسمان سے برسنے والی بارشیں‘ ان سب نے اپنے توازن کے حساب سے اپنی گزرگاہیں بنائی ہوئی ہیں۔ یہ سب قدرت کا حسنِ ترتیب ہے جو اس سارے نظام کو بخیر و خوبی چلاتا رہتا ہے اور آپ جب تک اس توازن کو انسانی کاوشوں سے خاص حد سے زیادہ خراب نہیں کر دیتے یہ کسی نہ کسی طور چلتا رہتا ہے لیکن جب معاملہ حد سے گزر جائے تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو ہوا ہے۔
اگر برس ہا برس تک حالات و معاملات نارمل یا اس سے کم سطح پر چلتے رہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قدرت نے اپنے حساب سے جو گزرگاہ بنائی ہوئی ہے وہ فالتو ہے اور آپ اس کو اپنی مرضی سے تبدیل کرلیں یا اس میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں یہ راستے اور گزرگاہیں ایک دو دن یا سال دو سال کے عمل سے وجود میں نہیں آئے۔ یہ صدیوں کے معمولات کے بعد وجود میں آتے ہیں۔ خالقِ کائنات کے اس نظام میں یہ گزرگاہیں ان لاکھوں کروڑوں سال میں ان گنت بار اپنی آخری حد والی گنجائش کو آزما چکی ہوتی ہیں اور تب جا کر یہ گزرگاہیں وہ صورت اختیار کرتی ہیں جو ہمارے سامنے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو ایک دو عشرے آرام سے گزر جائیں تو اس معمول کو معیار بنا لیتے ہیں اور پھر اپنی مرضی سے اس میں تبدیلیاں شروع کر دیتے ہیں۔ قدرت کے طے شدہ اور مقرر کردہ نظام کو خراب کرنے‘ بگاڑنے یا تبدیل کرنے کے بعد یہ امید رکھی جائے کہ یہ خراب شدہ نظام سلامتی کا باعث بنے گا تو ہماری حماقت کے سوا اور کچھ نہیں۔
میں نے عشروں پہلے تونسہ شہر کے قریب سے اور منگروٹھہ کے ساتھ سے گزرتے ہوئے نالہ سنگھڑ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ عام دنوں میں خشک رہنے والا یہ نالہ جو دراصل رود کوہی یعنی پہاڑوں سے آنے والے بارشوں کے پانی کی گزرگاہ ہے صرف بارشوں کے دنوں میں چلتا ہے اور اس علاقے میں عموماً بارشیں بہت زیادہ شدت سے نہیں ہوتیں؛ تاہم یہ گزرگاہیں حیران کن حد تک چوڑی تھیں۔ میں بھی تب حیران ہوا تھا کہ آخر سال میں ایک دو ماہ کے لیے چلنے والا یہ پہاڑی نالہ اس قدر چوڑا کیوں ہے؟ پھر اس نالے میں لگنے والے بجری کے کرشرز اور تجاوزات نے اس کا سارا حلیہ ہی بدل دیا اور اس کی کم از کم استعداد کو مدِنظر رکھ کر بنائے گئے پلوں نے اس میں سے گزرنے والے پانی کی استعداد کو مزید کم کر دیا اور سیلابی ریلے کی صورت میں ان پلوں کے باعث پانی نہ صرف کناروں سے نکل کر آبادیوں کو اپنے ساتھ بہا لے گیا بلکہ ساتھ ہی پلوں کو بھی خس و خاشاک کی مانند روندتا چلا گیا۔ انگریزوں کے زمانے میں باقاعدہ ایک محکمہ تھا جو ان رودکوہیوں کو قدرت کے نقشے کے مطابق محفوظ رکھنے پر مامور تھا۔ پھر ہمیں آزادی مل گئی اور پھر جس کا جو دل کیا وہ کر گزرا۔
یہ غالباً 1978ء کی بات ہے جب میں‘ منیر چودھری‘ قائد اقبال اور ایوب خان کمر پر ”لادو‘‘ باندھ کر وادیٔ کیلاش اور سوات میں پیدل مارے مارے پھرتے رہے تھے۔ ایک دن صبح بحرین سے کالام کے لیے پیدل روانہ ہوئے تو کمر پر بندھے ہوئے لادو میں دو جوڑے کپڑوں کے علاوہ ایک تھکا ہوا سلیپنگ بیگ تھا اور آدھا آدھا گرما باندھا ہوا تھا جو راستے میں کھانے اور انرجی لیول کو برقرار رکھنے کے لیے ہمارا واحد سہارا تھا۔ راستے میں رکتے رکاتے‘ ہر دو چار میل کے بعد گرمے کی دوقاشیں کھاتے اور سڑک کے ساتھ بہتے ہوئے پانی کی نالی سے پیاس بجھاتے ہم رات کے اندھیرے میں جب کالام پہنچے تو اس چالیس کلومیٹر کے لگ بھگ سارے راستے میں ہمارے دائیں طرف دریائے سوات تھا اور یہ کنارہ کسی قسم کی تجاوزات تو رہیں ایک طرف ہر قسم کی تعمیرات تک سے یکسر خالی تھا۔ اوپر پہاڑ کی کگر پر پی ٹی ڈی سی کا ہوٹل اور ایک اور ہوٹل فلک سیر تھا جو ہماری جیب کی اوقات سے بہت اونچے درجے کی شے تھے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ تب دریا کے ساتھ سڑک کی بائیں طرف نیچے صرف ایک ہوٹل تھا جس کا نام مجید ہوٹل تھا اور دریا اپنی پوری خوبصورتی کے ساتھ بہہ رہا تھا۔
تب بحرین میں جہاں درال نالہ دریائے سوات میں ملتا تھا وہاں ایک دیو ہیکل پتھر پڑا ہوتا تھا اور سڑک کی دائیں طرف یعنی دریا کے ساتھ نہ کوئی ہوٹل تھا اور نہ کوئی عمارت۔ برسوں بعد گیا تو اس پتھر پر مسجد بن چکی تھی اور درمیان سے پانی گزرنے کا راستہ بند کرکے انسانوں کے گزرنے کا راستہ بنا دیا گیا تھا۔ 1986ء میں اپنی اہلیہ کے ساتھ پہلی بار سوات گیا تو حالات قدرے ویسے ہی تھے مگر چار چھ سال بعد جانا ہوا تو کالام پہچانا ہی نہ گیا۔ دریا کے ساتھ ساتھ نہیں‘ بلکہ دریا کے اندر بننے والے ہوٹلوں کی ایک قطار تھی جس نے دریا کا نظارہ ہی ختم کر کے رکھ دیا تھا۔ گزشتہ سال شوکت وغیرہ کے ساتھ گیا تو یہ سوچ کر واپس آیا کہ اب یہ علاقے جانے کے قابل نہیں رہ گئے۔ واپسی پر شوکت وغیرہ سے دریا کی بربادی‘ منظرنامے کی تباہی اور تجاوزات پر بات ہوئی تو اس بات پر بھی بڑی حیرت ہوئی کہ جب ہوٹلوں والے دریا پر قبضہ کر رہے تھے تو سرکار کہاں تھی‘ حکومتی ادارے کیا کر رہے تھے اور وہاں جانے والے سرکاری افسران اس بربادی کو دیکھ کر کیا محسوس کرتے تھے؟ یہ کم از کم تین عشروں کی مسلسل چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔ تباہی ایک دن میں نہیں آتی۔ اس ملک میں جہاں ہر ادارہ اور ہر بندہ پلاٹوں کے پیچھے ہے تو یہ لاوارث نالے‘ رودکوہیاں اور دریا کیسے بچ سکتے تھے؟ ویسے تو یہ پانی بتائے بغیر آ گیا تھا اگر پہلے سے بتا کر آتا تو یار لوگوں نے اس کی آمد سے پہلے حکم امتناعی لے لینا تھا۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ