پی ٹی آئی والوں کو بات کم ہی سمجھ میں آتی ہے تاہم حالات و واقعات نے دھکے سے تین باتیں سمجھا دی ہیں۔ پہلی یہ کہ دعویٰ کرنے کے لیے سو دن کی مدت بہت ہی کم بلکہ نامعقول حد تک کم ہے۔ دوسری یہ کہ خوار کرنے کے لیے ستاون دن بھی بہت ہوتے ہیں اور تیسری اور آخری بات یہ کہ اپوزیشن میں بیٹھنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے‘ خصوصاً جب حکومت میں میاں نواز شریف اینڈ کمپنی بیٹھی ہو۔
بقول چوہدری بھکن، تحریک انصاف والوں کی کارکردگی کا جواب نہیں اور پھرتیوں کی تو مثال نہیں دی جا سکتی۔ نئی حکومتیں عوام میں غیر مقبول اور ناپسندیدہ ہوتے بہرحال کچھ وقت لیتی ہیں لیکن ستاون دن میں اس قدر رسوا ہونے کا جو ریکارڈ پی ٹی آئی والوں نے قائم کیا‘ وہ اس قدر مضبوط اور مستحکم ہے کہ اسے توڑنا فوری طور پر کسی کے بس کی بات نظر نہیں آ رہی؛ تاہم ایک بات کا چوہدری نہایت ہی معترف ہے اور وہ یہ کہ پی ٹی آئی والوں کی بلکہ اگر صاف صاف بات کی جائے تو عمران خان صاحب کی وزارت عظمیٰ میں بھی وہی پرانی حرکتیں ہیں اور اس میں رتی برابر فرق نہیں پڑا۔ ادھر یہ عالم ہے کہ بندہ میونسپل کمیٹی کا کونسلر بن جائے تو اپنی اوقات بھول جاتا ہے‘ ادھر یہ عالم کہ اعلیٰ حضرت وزیراعظم بن گئے مگر پرانا کام نہیں چھوڑا۔ اسی دلجمعی اور مستقل مزاجی سے چلا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: اس بات سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ کہنے لگا: موصوف اسی طرح یُو ٹرن لے رہے ہیں جس طرح اپوزیشن کے دوران لیتے تھے۔ میں نے تازہ ترین یُو ٹرن بارے پوچھا تو چوہدری بھکن کہنے لگا: ایک کی بات کرتے ہو‘ دو بتا دیتا ہوں۔ پہلا یہ کہ گزشتہ حکومت نے اپنے بجٹ میں نان فائیلرز یعنی ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والے لوگوں کے لیے یہ پابندی لگا دی کہ وہ نہ زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی گاڑی۔ یعنی ٹیکس ادا نہ کرنے والوں پر پابندی لگا دی کہ وہ زمین اور گاڑی نہیں خرید سکتے۔ اس کا مقصد ٹیکس نہ دینے والوں کو جائیداد اور گاڑی کی خرید سے روکنا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ ”غریب‘‘ ٹیکس نہیں دے سکتا اسے زمین اور گاڑی کی ملکیت کا کوئی حق نہیں۔ بات تو ٹھیک تھی۔ گھر کے سارے خرچوں کے بعد بھی جو بندہ پندرہ بیس لاکھ کی گاڑی یا چالیس پچاس لاکھ کی زمین خریدتا ہے‘ وہ ٹیکس کیوں نہیں دیتا؟ اور اگر ٹیکس نہیں دیتا تو ٹیکس سے بچائی ہوئی‘ گول کی گئی رقم سے موج میلہ بھی نہیں کر سکتا۔ قانون ٹھیک تھا۔ لیکن ہوا کیا؟
پی ٹی آئی کے حسابی کتابی دماغ اسد عمر نے ایک ضمنی سا بجٹ کھڑکا دیا اور نان فائیلرز کو سابقہ حکومت کے بجٹ میں لگائی گئی پابندی سے آزاد فرما دیا۔ کسی نے شاید اسد عمر کو یہ باور کروا دیا تھا کہ تیسری دنیا میں معیشت کا زیادہ تر دارو مدار ”بلیک منی‘‘ پر ہوتا ہے‘ بلکہ تیسری دنیا چھوڑیں تقریباً ساری دنیا میں ناجائز دولت معیشت کا بہت ہی مضبوط ستون ہے اور خاص طور پر پراپرٹی بزنس یعنی ”رئیل اسٹیٹ‘‘ کا کام تو چلتا ہی دو نمبر پیسے سے ہے‘ اور اگر ناجائز دولت والی انویسٹمنٹ اس سیکٹر سے نکل گئی تو سارا رئیل اسٹیٹ سیکٹر بیٹھ جائے گا اور اگر یہ سیکٹر بیٹھ گیا تو علیم خان اینڈ کمپنی کا کیا بنے گا (یہ منطقی نتیجہ سمجھدار لوگوں کی گفتگو سے نکالا ہے) سو انہوں نے یعنی اسد عمر نے سابقہ حکومت کی لگائی گئی نان فائیلرز پر گاڑی اور جائیداد خریدنے کی پابندی ختم کر دی اور بزعم خود ملکی معیشت میں تعمیر و ترقی کا جو دروازہ سابقہ حکومت نے بند کر دیا تھا ‘ وہ کھول دیا۔ ابھی دروازہ کھلے چند روز بھی نہ ہوئے تھے کہ انہوں نے دوبارہ سے نان فائیلرز پر گاڑی اور پراپرٹی خریدنے پر پابندی عائد کر دی۔ بات صرف اتنی نہیں کہ ایک فیصلہ تبدیل کر لیا گیا بلکہ بات اس سنجیدگی بارے ہے جو پالیسی بنانے اور اسے نافذ کرنے جیسے معاملات کے لیے درکار ہے۔ کیا پی ٹی آئی والے حکومت میں آنے کے بعد بھی وہ سنجیدگی اختیار کر سکے؟ میرا خیال ہے جواب دینے کی ضرورت نہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ بجٹ آتا تھا اور سال میں واقعتاً ایک بار آتا تھا۔ سرکاری ملازم، پرائیویٹ سیکٹر کے تنخواہ دار، کاروباری، سرمایہ دار اور دیہاڑی دار‘ سب اس بجٹ کے مطابق اپنا بجٹ بناتے تھے اور اگلے سال نیا بجٹ آنے تک اپنے گھر کے سارے معاشی معاملات کو سال بھر سکون سے (سکون سے مراد تسلیم شدہ حقائق کے مطابق برا بھلا گزارہ ہے) اپنے اپنے ذرائع کے مطابق چلاتے تھے لیکن پھر کچھ بھی سالانہ بنیادوں پر نہ رہا۔ ڈالر اوپن ہو گیا۔ امپورٹ یعنی درآمد ذلیل و رسوا ہو کر رہ گئی۔ کسی چیز کی قیمت پائیدار بنیادوں پر استوار نہ رہ سکی۔ حکومتی بجٹ تو سال میں دو بار ہوا لیکن گھر کا بجٹ تین سو پینسٹھ دن کے حساب سے روزانہ کی بنیاد پر بنایا جانے لگ گیا۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ اب بہت سی چیزیں ہمارے کنٹرول میں نہیں رہیں۔ ڈالر کی قیمت‘ تیل اور بجلی کی قیمت اور ان تین چیزوں پر دارو مدار کرنے والی ہزاروں دیگر چیزیں جو براہ راست ان سے جڑی ہوئی ہیں‘ لیکن جو چیز ہم نے بنانی ہے یعنی پالیسی‘ کم از کم وہ تو سوچ سمجھ کر بنائی جائے۔ پالیسی بناتے ہوئے سنجیدگی سے کام لیا جائے۔ اس پر پوری طرح غور و خوض کیا جائے۔ کیا جگ ہنسائی اور مذاق ہے کہ اتنا بڑا فیصلہ پہلے بغیر سوچے سمجھے کر دیا۔ محض اس لیے کہ یہ سابقہ حکومت نے بنایا تھا اور اس فیصلے سے ٹیکس چوروں اور لینڈ مافیا کو تکلیف ہوئی تھی۔ پھر یہ فیصلہ چار دن بھی نہ چل سکا اور نان فائیلرز کے جائیداد اور گاڑی خریدنے پر پھر سے پابندی عائد کر دی گئی۔ میں ذاتی طور پر اس پابندی کا حامی ہوں اور ٹیکس چوروں کو کسی نہ کسی طور پر ٹیکس نیٹ میں لانے کا پرزور حامی بھی ہوں کہ سارے ملک کی معیشت تقریباً چودہ لاکھ ساٹھ ہزار ٹیکس گزاروں پر نہیں چلائی جا سکتی۔ ان ٹیکس گزاروں میں سے قریب آدھے وہ ہیں جنہیں باقاعدہ یعنی ایکٹو ٹیکس گزار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایکٹو ٹیکس گزاروں کی تعداد حقیقتاً اس سے آدھی ہے اور ان میں سے بھی اسی نوے فیصد وہ ”مجبور ٹیکس گزار‘‘ ہیں جن کی تنخواہ میں سے ان کا ادارہ ہر ماہ خود بخود ٹیکس کاٹ لیتا ہے۔
باقی ٹیکس ڈیوٹی، جی ایس ٹی اور اسی قسم کے چار چھ دیگر بڑے بڑے ٹیکسوں کی صورت‘ جیسے موبائل کارڈ پر سرکاری ٹیکس وغیرہ ‘ کاٹ لیا جاتا ہے۔ از خود ٹیکس ا دا کرنے والوں کی تعداد کا تو کیا بتائیں پاکستان بھر میں کل ٹیکس گزاروں کی تعداد آبادی کا 0.75فیصد یعنی سو میں سے پورا ایک شخص بھی ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ ٹیکس کی ادائیگی سے موازنہ کرتے ہوئے آمدنی سے زیادہ اثاثوں کو بنیاد بنایا جائے تو ملک میں لینڈ کروزرز اور لگژری گاڑیوں پر چڑھنے والوں کی غالب اکثریت ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔ یہ کیسے ہے؟ اس بارے سوال کرنے والے خود وہ ہیں جو ان لگژری گاڑیوں پر چڑھ کر اسمبلیوں میں قانون سازی میں مصروف ہیں۔
بات کہیں کی کہیں چلی گئی۔ میں نے چوہدری بھکن سے پوچھا: اور دوسرا یوٹرن کیا ہے جو تازہ ترین ہے؟ چوہدری کہنے لگا: یہ اپنے آئی جی پنجاب والا۔ محمد طاہر کو خیبرپختونخوا سے بڑے چاؤ سے لائے اور ابھی ان کے آئی جی شپ کے آرڈر پر ہونے والے دستخطوں کی سیاہی پوری طرح خشک نہ ہوئی تھی کہ انہیں تبدیل کر کے امجد سلیمی کو آئی جی پنجاب لگا دیا۔ میں نے چوہدری سے پوچھا: آخر اس تبدیلی کی کیا وجہ ہے؟ چوہدری بھکن کہنے لگا: اس بارے شاہ جی سے پوچھا تھا‘ ان کا کہنا ہے کہ دراصل حکومت نے اپنے بارے میں میرٹ کی اتنی افواہیں پھیلائیں کہ محمد طاہر جیسا شریف النفس پولیس افسر بھی سیاستدانوں کی سفارشوں کو ٹکے کی اہمیت دینے پر تیار نہ تھا۔ خاص طور پر ٹرانسفر اور پوسٹنگ میں اسی طرح خود سر ہونے لگے جیسا خیرپختونخوا میں ناصر درانی صاحب ہوا کرتے تھے۔ بس میرٹ کی ساری ہوا نکل گئی۔ اوپر سے امجد سلیمی کے پاس چوہدری سرور یعنی گورنر صاحب کا ”پاوا‘‘ تھا۔ سو میرٹ جہنم میں، محمد طاہر کھڈے لائن، امجد سلیمی آئی جی کے دفتر میں اور ناصر درانی استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ رہے نام میرٹ کا۔
قارئین سے معذرت کہ کالم کا محرک ضمنی انتخابات کے نتائج تھے لیکن قلم باغی ہو گیا۔ اس پر آئندہ کالم میں سہی۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ