کچھ عرصے سے پاکستانی سینما میں، سماجی موضوعات کو اہمیت ملنے لگی ہے، حال ہی میں نمائش کی جانے والی فلم ’ورنہ‘ اِسی رجحان کی ایک کڑی ہے۔یہ فلم پاکستان کے معروف ہدایت کار شعیب منصور نے بنائی ہے، جس کا موضوع ’خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی‘ ہے۔موضوع تو متنازعہ تھا ہی، مگر پاکستان کے وفاقی سنسر بورڈ کی طرف سے مختصر وقت کے لیے لگائی جانے والی پابندی کی وجہ سے، اِس کی نمائش بھی تنازعات کا شکار ہوئی، مگر بہرحال اب اِس فلم کو، مقررہ تاریخ پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں نمائش کے لیے پیش کر دیا گیا ہے۔فلم کے کہانی نویس شعیب منصور خود ہیں۔ کہانی بیان کرنے کا انداز تو پرانا ہے، مگر مکالموں میں عہدِ حاضر کے مسائل کی نشاندہی بہت اچھے طریقے سے کی گئی ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے، مضبوط مکالمہ نگاری کی وجہ سے کہانی میں ناظرین کی دلچسپی برقرار رہے گی۔ اِسی کے ساتھ کہانی میں شعوری طور پر توازن رکھا گیا ہے، جس طرح اگر سیاست دان کا بیٹا زانی ہے تو باپ کو نیک دل اور بے خبر دکھایا ہے، متاثرہ لڑکی کا سسر طاقت ور شخص ہے تو اُس کا باپ مظلوم نظر آتا ہے، دو سیاستدان ظالم ہیں تو ایک سیاست دان نیک دل بھی ہے۔فلم سازی، ہدایت کاری، موسیقی ۔۔ اِن شعبوں میں بھی شعیب منصور تینوں منصب سنبھالے ہوئے ہیں۔ فلم سازی کے لحاظ سے یہ ایک کم بجٹ کی فلم ہے، جس میں بہت زیادہ خرچہ نہیں کیا گیا۔ ایک خوبصورت حویلی، دو گھر، ایک پارک، ایک عدالت، ایک مارکیٹ اور اِسی طرح کی چند عام سی لوکیشنز سے کام چلا لیا گیا ہے، حتیٰ کہ عدالت کا منظر دیکھتے وقت بڑی حیرت ہوئی کیونکہ فلم ’خدا کے لیے‘ کی عدالت کے برعکس اِس فلم میں ایک تنگ سے کمرے کو مرکزی عدالت کے طور پر دکھایا گیا ہے، کہیں ڈمی چینل تو اصل اینکر بھی دکھائی گئی ہے۔ بجٹ کی تنگی پوری فلم پر حاوی ہے، سوائے اُن چند مناظر کے، جن میں سیاست دان اور اُس کے بیٹے کے کردار عکس بند کیے گئے ہیں۔فلم کی ہدایت کاری تکنیکی لحاظ سے تو پھر بھی ٹھیک ہے، مگر شعیب منصور، جن کے کریڈٹ پر بہت سارے معیاری ڈرامے ہیں، وہ فلم سازی میں ابھی تک اُس طرح اپنی صلاحیتوں کے جوہر نہیں دکھا پائے،جو فلم کو متاثر کن بناسکیں۔ اُنہیں سوچنا چاہیے، عہدِ جدید میں فلم بین اور سینما کا مزاج بدل رہا ہے، اِس کو ذہن میں رکھ کر فلمیں بنائیں، این جی او ایجنڈا زیادہ ساتھ نہیں دے گا، نہ ہی ہدایت کاری کا پرانا طریقہ واردت ۔ فلم کی ہدایت کاری تکنیکی لحاظ سے تو پھر بھی ٹھیک ہے، مگر شعیب منصور، جن کے کریڈٹ پر بہت سارے معیاری ڈرامے ہیں، وہ فلم سازی میں ابھی تک اُس طرح اپنی صلاحیتوں کے جوہر نہیں دکھا پائے،جو فلم کو متاثر کن بناسکیں۔ اُنہیں سوچنا چاہیے، عہدِ جدید میں فلم بین اور سینما کا مزاج بدل رہا ہے، اِس کو ذہن میں رکھ کر فلمیں بنائیں، این جی او ایجنڈا زیادہ ساتھ نہیں دے گا، نہ ہی ہدایت کاری کا پرانا طریقہ واردت۔شعیب منصور کی فلم ہونے کی وجہ سے فلمی شائقین کی نظریں پہلے ہی اِس فلم پر تھیں، اور پاکستان میں نمائش پر پابندی کی وجہ سے یہ فلم، فلم بینوں کی توجہ حاصل کرنے میں مزید کامیاب ہوچکی ہے، لہذا اب یہ ہوسکتا ہے کہ ابتدائی دنوں میں فلم باکس آفس پر اچھا رسپانس دے، مگر زیادہ دنوں تک یہ فلم اپنا جادو نہیں جگا سکے گی، کیونکہ اِس فلم کی نمائش سے پہلے اور اِس کے بعد ،اِس سے بہت بہتر فلمیں بن رہی ہیں، اِس لیے یہ فلم اپنے لیے باکس آفس پر زیادہ بہتر نتائج حاصل نہیں کرسکے گی۔
( بشکریہ : ڈان اردو )