ایک ایسے ماحول میں جب بعض عجلت پسند مصنفین اوروں کی کتابیں اپنے نام سے چھپوا کر اپنی مطبوعہ کتب کی تعداد میں مصنوعی اضافہ کر رہے ہیں وسیم ممتاز مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے والد کی کتاب انہی کے نام سے منظر عام پر لے آئے ۔وہ اگر ممتاز العیشی کی شاعری اپنے نام سے بھی شائع کرا لیتے تو کوئی انہیں کچھ نہ کہتا کہ ایسا ہمارے ہاں بارہا ہوتا آیا ہے ۔ اور پھر ممتاز صاحب کی شاعری کے بارے میں تو وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اگر یہ میرے نام سے شائع ہو گئی ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے یہ تو مجھے وراثت میں ملی ہے ۔ ویسے بھی ممتاز العیشی صاحب کا شمار اساتذہ میں ہوتا تھا اساتذہ کی شاعری پر شاگرد اگر اپنا حق جتلا سکتے ہیں تو اولاد بھلا کیوں نہ جتلائے ؟ ہم بہت سے ایسے شعراء کو جانتے ہیں کہ جن کے شعری مجموعوں اور بیاضوں سے ممتاز العیشی، بیدل حیدری ، نسیم لیہ اور حزیں صدیقی جیسے اساتذہ کی غزلیں من وعن جھانکتی ہیں اور وہ ان غزلوں کو استاد کا اسلوب قرار دے کر احباب کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے یہاں عاصی کرنالی کا ذکر دانستہ نہیں کیا۔ ان کا شمار بھی اساتذہ میں ہوتا ہے لیکن اس فہرست میں اگر ہم ان کا نام بھی شامل کر دیتے تو احباب یہ سمجھتے کہ شاید ہم ثمر بانو ہاشمی ، عظمت کمال اور شارق جاوید کی شاعری کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وسیم ممتاز نے ممتاز العیشی صاحب کا شعری مجموعہ شائع کرا کے بلاشبہ ایک ایسا کام کیا ہے کہ جسے بھر پور انداز میں سراہا جانا چاہیے ۔ انہوں نے صرف اپنے والد کے کام کو ہی نہیں اس شہر کے شعری ورثے کو بھی محفوظ کیا ہے اور یہ کام انہوں نے ایک ایسے دور میں اور ایک ایسے ماحول میں کیا ہے جب لوگوں کو فراموش کرنے کی روایت مستحکم ہو رہی ہے ۔ بہت سے شاعر اور ادیب ہمارے درمیان سے اٹھ گئے اور ہم نے پلٹ کر کبھی انہیں یاد بھی نہ کیا۔ ہر سال ان کی برسیاں گزر جاتی ہیں اور ہمیں یاد بھی نہیں رہتا کہ اس روز ہم نے کوئی جنازہ بھی پڑھا تھا۔
ممتاز العیشی کی کتاب ان کی برسی کے موقع پر شائع ہوئی ہے اور آج 19نومبر کو اس کی تعارفی تقریب ہو رہی ہے ۔ 16برس قبل آج ہی کے روز ممتاز العیشی صاحب ملتان کے ادیبوں اور شاعروں کو اداس کر گئے تھے ۔ کسی شاعر کی برسی منانے کا بھلا اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ممتاز العیشی ان لوگوں میں سے تھے کہ جنہوں نے ملتان کے شعری ماحول کو ترتیب دینے اور اس کی بنیادیں مستحکم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ عظیم ادبی روایات کے امین تھے ۔ ان روایات کے امین تھے جو اب ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ آج ہمارے ہاں شعر کہنے والے تو بہت ہیں مگر نئے لوگوں کو شعر گوئی کے ہنر سے آشنا کرنے والا کوئی نہیں۔ ممتاز العیشی نے اپنے استاد عیش فیروز پوری سے جو کچھ سیکھا اسے آنے والی نسلوں کے سپرد بھی کر دیا۔ ایک شمع جو ان کے ہاتھ میں ان کے استاد نے تھمائی تھی انہوں نے اسے صرف اپنے تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے ذریعے نئے لوگوں کو بھی راستہ دکھایا۔ انہوں نے ایک پوری نسل اور ایک پورے عہد کی تربیت کی ۔ ایسے ہی لوگ تھے کہ جن کے دم سے شعری محفلیں آباد تھیں۔ آج ہم ادبی محفلوں سے لوگوں کے دور ہو جانے کا ذکر کرتے ہیں۔ ہم نئی نسل پر اعتراض کرتے ہیں کہ وہ شعر وادب سے لا تعلق ہوتی جا رہی ہے ۔ ادبی تقریبات اور ان تقریبات کے شرکاء کی تعداد میں کمی کا تذکرہ رہتا ہے ۔ ہم اس کی دیگر وجوہات پر تو غور کرتے ہیں مگر ایک وجہ کو ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ ادب سے نئی نسل کی دوری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب ممتاز العیشی جیسے لوگ ہمارے درمیان نہیں رہے ۔ وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنی زندگیاں شعر وادب کیلئے وقف کر رکھی تھیں۔ نئے لوگ اب بھی شعر وادب کی طرف آتے ہیں۔ مگر انہیں کوئی رہنما نہیں ملتا۔ وہ کچھ عرصہ تخلیقی عمل کے ساتھ منسلک رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر بددل ہو کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ ممتاز العیشی سمیت جن اساتذہ کا ہم نے ابھی ذکر کیا ان کی خوبی یہی تھی کہ نئے لوگوں کے دلوں میں شعر وادب سے محبت کی جو چنگاری ہوتی تھی وہ اسے شعلہ بنانے میں مدد دیتے تھے ۔ استاد مشاعروں میں اپنے شاگرد کے بہت سے شعروں پر داد تو وصول کرتا تھا مگر وہ اسے بہت کچھ عطا بھی کر دیتا تھا۔
’’میں ابھی زندہ ہوں‘‘ممتاز العیشی صاحب کی موت کے 16سال بعد شائع ہوئی ہے اور 16سال بعد کتاب کی اشاعت نے اس کے عنوان کو ایک نئی معنویت دے دی ہے ۔ کتاب کے سرورق پر ممتاز صاحب کی ایک بولتی ہوئی تصویر ہے اور اس پر لکھی ہوئی یہ لائن تحریر کی صورت میں صرف دکھائی ہی نہیں دیتی آواز بن کربھی ہمارے کانوں تک آتی ہے ۔
میں جو مر جاؤں تو کر لینا پھر اپنی مرضی
دوستو مان بھی جاؤ میں ابھی زندہ ہوں
ممتاز العیشی زندہ رہیں گے ۔ مرتا وہ ہے جسے یاد کرنے والا کوئی نہ ہو۔ ممتاز العیشی کو یاد کرنے والے جب تک یاد کرتے رہیں گے وہ زندہ رہیں گے اور صرف وہی زندہ نہیں رہیں گے ان کے ساتھ عیش فیروز پوری بھی زندہ رہیں گے کہ ممتاز صاحب نے اپنے استاد کے نام کو اپنے نام کا حصہ بنایا ہی اس لئے تھا کہ جہاں جہاں میرا نام آئے وہیں میرے ساتھ میرے استاد کا نام بھی آئے ۔ کیسے وضعدار لوگ تھے استاد کے نام کو اپنی پہچان بنا کر فخر محسوس کرتے تھے ۔ یہ رویہ ہمیں مذاق العیشی کے ہاں بھی نظر آتا ہے ۔ بیدل حیدری اور گفتار خیالی کے ہاں بھی ۔ ایسے وضع دار قلمکار اب بھلا کہاں ۔ اب تو خود نمائی کا دور ہے ۔ لوگ اپنے نام اور ذات کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی نے ٹھیک ہی تو کہا ہے کہ ہم عہد زوال میں زندہ ہیں۔ ایسا عہد زوال کہ جس میں بڑے لوگ ایک ایک کر کے رخصت تو ہو رہے ہیں۔ مگر ان کے قد کاٹھ کا کوئی اور سامنے نہیں آرہا۔
ممتاز العیشی کے شعری مجموعے کی اشاعت ایک خوبصورت روایت کا آغاز ہے ۔ ملتان کے بہت سے ادیب اور شاعر ایسے ہیں کہ جن کا کلام اور تحریریں ان کی زندگی میں کتابی صورت میں منظر عام پر نہیں آسکیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے لوگوں کا سرمایہ محفوظ کرنے کی کوشش کی جائے ۔ کچھ کام زکریا یونیورسٹی کی سطح پر جاری ہے کچھ ہمیں اپنے طور پر بھی کرنا چاہیے ۔ یہ قرض نہیں ایک فرض ہے کہ جسے ادا کرنا ضروری ہے ۔ اس شہر کے ادبی اثاثے کو محفوظ کرنا کسی اور کے لئے نہیں خود ہمارے لئے مفید ہو گا۔ کہ جو لوگ چلے گئے انہیں تو اس سے کوئی غرض ہی نہیں کہ اب ان کا کلام کتابی صورت میں شائع ہوتا ہے یا نہیں۔
( 2005 ء میں کتاب کی تعارفی تقریب میں پڑھا گیا )
فیس بک کمینٹ