بہاءالدین زکریاؒ کے سالانہ عرس کے موقع پر نعتیہ مشاعرہ ہو رہتا تھا۔غضنفر مہدی نے نظامت کی ذمہ داری مجھے سونپی اور کہا آج کے مشاعرے میں تقریباً تمام سینئر شعراءموجود ہیں۔ تقدیم و تاخیر کا خیال رکھنا۔ وہ مشاعرہ اس لحاظ سے اہم تھا کہ اُس میں ڈاکٹر عاصی کرنالی، مذاق العیشی، اسلم انصاری، ممتاز العیشی، حسین سحر، اقبال ارشد، ڈاکٹر محمد امین، پروفیسر انور جمال اور دیگر شعراءشدید گرمی کے باوجود موجود تھے۔ مشاعرے کی صدارت مخدوم محمد سجاد حسین قریشی کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ شاہ محمود قریشی بھی مشاعرہ سننے آئے تھے۔ عام طور پر مخدوم صاحب کی روایت یہ تھی کہ وہ مشاعرہ شروع ہونے کے کچھ دیر بعد باب القریش چلے جاتے تھے لیکن اُس روز انہوں نے پورا مشاعرہ سنا اور اپنے صدارتی خطبہ میں انہوں نے جہاں مشاعرے کی تعریف کی وہیں خاص طور پر ممتاز العیشی کے کلام اور پڑھنے کے انداز کو سراہا۔ یہ ممتاز العیشی کے ساتھ ہمارا پہلا تعارف تھا۔ انہوں نے مشاعرہ کے اختتام پر اپنے بڑے بیٹے وسیم ممتاز کو یہ کہہ کر مجھ سے ملایا آئندہ آپ ہماری بجائے ان کے ساتھ مشاعرے پڑھا کریں گے۔مَیں نے یہ سنتے ہی کہا ممتاز صاحب اﷲ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے۔ ملتان میں آپ کا شمار ممتاز شعراءمیں ہوتا ہے اور وسیم ممتاز آپ کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ یہ سنتے ہی ممتاز العیشی کہنے لگے شاکر بیٹا یہ بات درست ہے کہ وسیم میرے بغیر کچھ نہیں ہے۔ لیکن یہ تو نظامِ قدر ت ہے جو آیا ہے اُس نے دنیا سے جانا تو ہے۔ ابھی ہم میں یہ مکالمہ جاری تھا کہ اقبال ارشد نے آ کر بتایا کہ مخدوم صاحب کے گھر چائے کا اہتمام ہے اور ہم اپنی گفتگو ختم کرنے کے بعد باب القریش چلے گئے۔بہاءالدین زکریاؒ کے سالانہ عرس کے موقع پر نعتیہ مشاعرہ ہو رہتا تھا۔غضنفر مہدی نے نظامت کی ذمہ داری مجھے سونپی اور کہا آج کے مشاعرے میں تقریباً تمام سینئر شعراءموجود ہیں۔ تقدیم و تاخیر کا خیال رکھنا۔ وہ مشاعرہ اس لحاظ سے اہم تھا کہ اُس میں ڈاکٹر عاصی کرنالی، مذاق العیشی، اسلم انصاری، ممتاز العیشی، حسین سحر، اقبال ارشد، ڈاکٹر محمد امین، پروفیسر انور جمال اور دیگر شعراءشدید گرمی کے باوجود موجود تھے۔ مشاعرے کی صدارت مخدوم محمد سجاد حسین قریشی کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ شاہ محمود قریشی بھی مشاعرہ سننے آئے تھے۔ عام طور پر مخدوم صاحب کی روایت یہ تھی کہ وہ مشاعرہ شروع ہونے کے کچھ دیر بعد باب القریش چلے جاتے تھے لیکن اُس روز انہوں نے پورا مشاعرہ سنا اور اپنے صدارتی خطبہ میں انہوں نے جہاں مشاعرے کی تعریف کی وہیں خاص طور پر ممتاز العیشی کے کلام اور پڑھنے کے انداز کو سراہا۔ یہ ممتاز العیشی کے ساتھ ہمارا پہلا تعارف تھا۔ انہوں نے مشاعرہ کے اختتام پر اپنے بڑے بیٹے وسیم ممتاز کو یہ کہہ کر مجھ سے ملایا آئندہ آپ ہماری بجائے ان کے ساتھ مشاعرے پڑھا کریں گے۔مَیں نے یہ سنتے ہی کہا ممتاز صاحب اﷲ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے۔ ملتان میں آپ کا شمار ممتاز شعراءمیں ہوتا ہے اور وسیم ممتاز آپ کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ یہ سنتے ہی ممتاز العیشی کہنے لگے شاکر بیٹا یہ بات درست ہے کہ وسیم میرے بغیر کچھ نہیں ہے۔ لیکن یہ تو نظامِ قدر ت ہے جو آیا ہے اُس نے دنیا سے جانا تو ہے۔ ابھی ہم میں یہ مکالمہ جاری تھا کہ اقبال ارشد نے آ کر بتایا کہ مخدوم صاحب کے گھر چائے کا اہتمام ہے اور ہم اپنی گفتگو ختم کرنے کے بعد باب القریش چلے گئے۔ اس مشاعرے کے کچھ عرصہ بعد اطلاع آئی کہ ممتاز العیشی انتقال کر گئے۔ پورا ملتان ان کے جنازے میں شریک تھا۔ پھر آہستہ آہستہ وسیم ممتاز نے ملتان کی ادبی تقریبات میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کر دیا۔ وسیم ممتاز نے ایک اچھا کام یہ کیا اس نے ان تقریبات میں اپنے چھوٹے بھائی فہیم ممتاز کو بطور شاعر لانا شروع کر دیا۔ اہلِ ملتان جب بھی ان دونوں کو دیکھتے ہیں ان کو حزیں صدیقی اور ایاز صدیقی یاد آتے ہیں۔ ان دونوں بھائیوں نے اپنے والد محترم کو زندہ رکھا ۔ تابع داری کی انتہا یہ ہے کہ دونوں ایک عرصے سے شاعری کر رہے ہیں۔ کئی مرتبہ مَیں نے وسیم ممتاز سے کہا آپ اپنا نعتیہ مجموعہ کلام تو کتابی صورت میں لے آئیں۔ وسیم ممتاز ہمیشہ یہ بات سن کر کوئی جواب نہ دیتے۔ بس خاموش ہو جاتے۔ ان کی خاموشی میں ایک بات پوشیدہ تھی شاید ان کا اپنے آپ سے وعدہ تھا کہ پہلے وہ اپنے والدِ محترم کا مجموعہ کلام شائع کرائیں گے۔ بعد میں وسیم ممتاز کی کتاب آئے گی۔ چند سال پہلے وسیم ممتاز نے مجھے کہا کہ شاکر بھائی مَیں نے اپنے والد صاحب کا کچھ کلام دریافت کیا ہے۔ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ مَیں ان کی شاعری کی کتاب منظرِ عام پر لے آؤ ں۔ وسیم ممتاز آخرکار کامیاب ہوئے اور ممتاز العیشی کی کتاب ”مَیں ابھی زندہ ہوں“ شائع کر کے اور تمام دوستوں کو پہنچا کر اپنے آپ سے کلام کر رہے ہیں کہ اپنے والدِ محترم کی کتاب شائع کرنا میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ جو اَب پوری ہو گئی ہے۔وسیم ممتاز جب مجھے یہ کتاب دینے کے لیے آیا اس کے چہرے پر خوشی دیدنی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے اسے تمغہ حسن کارکردگی مل گیا ہے۔ وہ سب کو بڑے فخر سے کتاب پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کتاب دیکھ کر کون کہتا ہے کہ ممتاز العیشی ہم میں نہیں ہیں وہ تو خود اپنی زبان میں کہہ رہے ہیں:کچھ سنو اور سناؤ مَیں ابھی زندہ ہوںیوں مجھے بھول نہ جاؤ مَیں ابھی زندہ ہوںممتاز العیشی کا شمار اُردو کے اُن شعراءمیں ہوتا تھا جنہوں نے روایت کے ساتھ ساتھ اپنے پیرائیہ اسلوب میں مستقبل کے تجربوں کے شاعری میں طبع آزمائی کی۔ ان کے شعر پڑھنے کا انداز بہت منفرد تھا۔ بلند قد و قامت اور گرجدار آواز ان کی خوبصورت شخصیت کا حصہ تھا۔ مشاعرہ پڑھتے ہوئے وہ حیدر گردیزی مرحوم کی طرح اپنے تمام سامعین کو متوجہ کر لیتے تھے۔ بقول ڈاکٹر عاصی کرنالی ”ممتاز العیشی جب محفلوں میں پڑھتے تھے تو ان کی آواز نہ صرف بند دلوں پر دستک دیتی تھی بلکہ دلوں کے کواڑ کھول کر براہ راست اور بلاتکلف دلوں کی تہوں میں پہنچ جاتی تھی۔“ ممتاز العیشی کا حافظہ اتنا اچھا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی مشاعروں میں بیاض سامنے رکھ کر شاعری نہیں سنائی۔ مختصر غزل ہو یا طویل نظم، نعت ہو یا منقبت ایک دفعہ یاد کر لیتے تو پھر تمام عمر کے لیے ان کے حافظے میں محفوظ رہتی۔ ان کی شخصیت کے بارے میں انور جمال لکھتے ہیں: ”ممتاز العیشی میں نظریہ، عقیدہ، ایمان، یقین اور نقطہ نظر کے سلسلے میں بالکل مروت نہیں تھی۔ وہ ایک کھری اور چمکتی تیغِ بے نیام تھا۔ نہایت متواضع طبیعت اور بااخلاق شخصیت کے باوجود اِدھر نظریے یا عقیدے کے خلاف بات ہوئی اُدھر اُس کے متبسم چہرے پر جلال کی سرخی نمودا ہوئی اور اس نے بالکل کھری کھری سنا دی۔“ ممتاز العیشی کی شخصیت کا یہی وصف ان کے بیٹوں میں دکھائی دیتا ہے۔ واضح طور ان کے بیٹوں نے دوستوں اور دشمنوں میں تمیز روا رکھی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں آج بھی لگتا ہے وسیم ممتاز کی صورت میں ممتاز العیشی زندہ ہیں۔ ”مَیں ابھی زندہ ہوں“ ملتان کے شعری اُفق میں ایک ایسا اضافہ ہے جو اپنے نام کی طرح زندہ رہے گی۔ یاد رہے ملتان میں بہت سی کتابیں ایسی ہیں جو کتابی صورت میں شائع تو ہوئی ہیں لیکن ان کو شائع ہوتے ہی موت آ گئی۔ شکر کی بات یہ ہے کہ عرصے بعد شاعری کی ایک ایسی کتاب منظرِ عام پر آئی ہے جو خودبخود کہہ رہی ہے:مَیں جو ممتاز ہوں ممتاز مجھے رہنے دوحوصلے میرے بڑھاؤ مَیں ابھی زندہ ہوں( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ