فروری 1986 ءکی ایک شب الحمرا لاہور کا آڈیٹوریم ملک کے طول و عرض سے آنے والے شاعروں،ادیبوں،مزدوروں،کسانوں اور سیاسی کارکنوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یہ تمام لوگ فیض امن میلے میں شرکت کے لئے آئے تھے ۔فیض صاحب کی وفات کے بعد ان کی یاد میں منعقد ہونے والا یہ پہلا میلہ تھا ۔سٹیج پر اقبال بانو اپنی خوبصورت آواز میں فیض صاحب کا کلام گارہی تھیں ۔اُن سے پہلے ٹیناثانی اور دیگرگلوکاروں نے بھی اپنے اپنے اندازمیں محفل کو خوبصورت بنایا تھا ۔اقبال بانو کے گائے ہوئے ایک ایک مصرعے پر والہانہ انداز میں داددی جا رہی تھی۔ ایک ایسا ماحول تھاکہ جو جہاں تھا وہ اس ماحول کا حصہ بن چکا تھا ۔پھر اقبال بانو نے فیض صاحب کی وہ نظم گائی جس نے پورے مجمع میں تحرک پیداکردیا ۔”ہم دیکھیں گے/ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے/ وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے / جو لوحِ ازل پر لکھا ہے/ ہم دیکھیں گے“ ۔جنرل ضیاءالحق کا مارشل لاءاپنے عروج پر تھا۔ سیاسی کارکن قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے ۔ پھانسیاں، کوڑے، جلا وطنیاں یہ سب کچھ اُس دور میں وطن عزیز کے منظرنامے کا حصہ تھا۔ ایسے میں اقبال بانو نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ’ہم دیکھیں گے‘ کی صدا بلند کی تو گویا سب پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی ۔سٹیج کے سامنے نوجوانوں کی ایک ٹولی نے رقص کرنا شروع کردیا۔پہلے تو چند نوجوان سٹیج کے سامنے آئے اور پھر اُن کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی اس رقص میں شامل ہوگئے ۔نظم کے ساتھ تالیوں کی تھاپ شامل ہوئی۔ رقص کرنے والوں کی تعدادمیں اضافہ ہوتا گیااور پھر اُن نوجوانوں میں ظہیرکاشمیری،منو بھائی،جاویدشاہین، شاہد سلیم ، اسلم گورداسپوری اوردیگر بہت سے سینئر شاعربھی شامل ہوگئے۔اور پھر جب اقبال بانو نظم کے اس حصے پر پہنچیں ”جب ارضِ خدا کے کعبے سے/ سب بُت اُٹھوائے جائیں گے/ ہم اہل صفا مردودِ حرم/ مسند پہ بٹھائے جائیں گے/ سب تاج اُچھالے جائیں گے/ سب تخت گرائے جائیں گے“تو فضا ضیا الحق کے خلاف نعروں سے گونج اُٹھی۔اس خوبصورت منظر کا خود میں بھی حصہ تھا اور یہ منظر اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ میرے ذہن میں کچھ اس طرح نقش ہوچکا ہے کہ آج کئی سال بعد بھی میں جب اقبال بانو کی آواز میں یہ نظم سنتا ہوں تو خود کو الحمرا لاہور کے اسی آڈیٹوریم میں والہانہ رقص کرتا محسوس کرتا ہوں۔ یہ الگ بات کہ وہ دن کہ جس کا وعدہ تھا ہم اب تک نہیں دیکھ سکے لیکن فروری 1986 ءکی اس رات ہمیں یقین ہوچکا تھا کہ بس وہ دن آنے ہی والا ہے۔ 31 برس قبل اقبال بانو کی گائی ہوئی جو نظم ترقی پسندوں کے لئے ایک ترانے کی حیثیت اختیار کرگئی تھی تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں کہ پھر وہی نظم پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے کے بعد مرد حر قرار پانے والے چیف جسٹس سے منسوب ہوئی۔ اس کے جلسوں میں یہی نظم جماعت اسلامی کے کارکن لہک لہک کر گاتے رہے ۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں فیض امن میلہ ملک بھر کے ترقی پسندوں کے لئے اُمید کی ایک کرن ثابت ہوا تھا۔ یہ میلہ کوئی تین یا چار سال جاری رہا اور ہر سال اس میں شرکت کرنے والوں کی تعدادبڑھتی چلی گئی ۔ ملک بھر سے مزدور، کسان، ہاری اور محنت کش سرخ پرچم لے کر لاہور پہنچتے اور فیض صاحب کو یاد کرتے تھے۔ وہ فیض صاحب کو ہی یاد نہیں کرتے تھے اُس روشن اور خوبصورت صبح کا مطالبہ بھی کرتے تھے جس کا خواب فیض صاحب نے دیکھا اور جس کے لئے وہ عمر بھر جدوجہد کرتے رہے۔ اگلے ہی برس 1987ءمیں اسی میلے کے دوران مشاعرے میں جب احمد ندیم قاسمی غزل پڑھنے آئے تو مشتعل نوجوانوں نے اُنہیں سٹیج سے اُتار دیا کہ یہ نوجوان ترقی پسند تحریک کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی کے کردار سے بخوبی واقف تھے۔ شایدیہی وہ واقعہ تھا جس نے ان قوتوں کو چونکا دیا جو اس ملک میں روشنی نہیں دیکھنا چاہتیں۔ اگلے برس یہ میلہ ریلوے گراﺅنڈ منتقل ہوا تو لوگوں نے دیکھا کہ سرخ پرچم تھامے ملک بھر سے آنے والے مزدوروں کسانوں کے لئے لاہور کاریلوے گرا ﺅنڈ بھی کم پڑگیا۔ اب اس میلے کو ختم کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ یہ میلے کچیلے، بھوکے ننگے لوگ امن کی بات کرتے تھے ۔ یہ مفلوک الحال، فاقہ زدہ لوگ جمہوریت کی بات کرتے تھے۔ یہ فیض کے شیدائی گونگوں کی بستی میں ’ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘ کا گیت گاتے تھے۔ وہ انسان دوستی کی بات کرتے تھے سو ان کے ساتھ سامراجی قوتوں کی دشمنی ضروری ہوگئی تھی ۔ ان کا راستہ روکنا ضروری ہوگیا تھا اور یہ راستہ روکنے کے لئے بھی ایک جمہوری حکومت کا سہارا لیاگیا ۔ 1988ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو بر سرِ اقتدار آئیں تو میلے کی رونق مزید بڑھ گئی ۔ اسی دور میں بعض نا دیدہ قوتوں کی جانب سے سرکاری عہدوں پر فائزفیض صاحب کی صاحب زادیوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے والد کی یاد میں منعقد ہونے والے ’سرخوں‘کے اس میلے کو کسی نہ کسی طرح ختم کردیں ۔ میلہ ختم کرنے کے لئے بھی باعزت طریقہ اختیار کیا گیا۔ فیض صاحب کی صاحب زادیوں نے اعلان کیا کہ فیض امن میلہ اب ہر سال فیض صاحب کے گا ﺅں کالا قادرمیں منعقد ہوا کرے گا۔ میلہ سیالکوٹ کے گا ﺅں کالاقادرمیں منتقل کردیاگیا۔ لاہور جیسے مرکزی شہر میں اس میلے کے انعقاد سے جو تحرک اور گہماگہمی پیدا ہوتی تھی وہ ختم ہو گئی۔ بعد کے دو تین برسوں کے دوران کالا قادر میں یہ میلہ تو منعقد ہوا مگر اس میں وہ پہلے والی بات نہ رہی ۔ جب منتظمین خود ہی اپنی کسی تقریب سے لا تعلق ہوجائیں تو اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو فیض امن میلے کا ہوا۔ ایک خوبصورت تحریک دم توڑ گئی۔ میلہ تو ختم ہوگیا مگر وہ فکر تو ختم نہیں ہوسکتی جو فیض صاحب نے دی۔ وہ خواب تو ختم نہیں ہوسکتے جو فیض صاحب نے ہمیں دکھائے اور جن کی تعبیر کی خواہش میں ہم زندہ ہیں۔ وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے ہم کب دیکھیں گے یہ توہمیں نہیں معلوم لیکن ہم یہ یقین ضروررکھتے ہیں کہ وعدہ کبھی نہ کبھی وفاضرور ہوگا۔
( جاری ہے )
فیس بک کمینٹ