میری زندگی کے چند ورق باقی تھے۔ ان میں سے ایک ورق منو بھائی کیلئے تھا۔ وہ بھی خزاں کے پتوں کی طرح گر گیا۔ منو بھائی کی 6 فروری کو سالگرہ ہوتی تھی۔ منو بھائی اکیلے نہیں، سید عابدعلی، شفقت تنویر مرزا اور منو بھائی، تینوں مل کر جب تک لاہور میں رہے، سالگرہ مناتے تھے۔ منو بھائی کی پچاس ویں سالگرہ کا انتظام سارے دوستوں نے مل کر کیا تھا۔ بہت بڑا جلسہ تھا۔ بالکل ایسے جیسے سیفما اور اسلام آباد پریس کلب والوں نے بھی اہتمام کیا تھا۔سالگرہ کی کیا بات ہے، ہم لوگ کسی نہ کسی کے آنے کی خوشی میں اکٹھے ہو جاتے تھے۔ کبھی نام دیتے تھے، سالگرہ کا، کبھی کسی کی کتاب کی مورت کرتے، کبھی کچھ نہیں تو ہر سنیچر کی شام اکٹھے بیٹھ کر ، کبھی اردو، کبھی انگریزی فلم دیکھتے، پھر اس پر بحث کرتے، کئی دفعہ کتابوں پر بھی یونہی باقاعدہ سنجیدہ بحث کی۔ پھر رولا اور پھرکھانا۔ واہ وہ دن بھی کیا تھے۔ جب ہم سب نہر کے کنارے پانی میں پاؤ ں ڈالے، کبھی شعر پڑھ رہے ہوتے تو کبھی حسن لطیف اپنی نئی دھن سنا رہا ہوتا۔ توکبھی امانت موڈ میں آکر کبھی غزل توکبھی ٹھمری سنا رہا ہوتا۔منو بھائی نے اپنی پچاسویں سالگرہ پر کجھ سے کہا تھا ’’دیکھو اس سالگرہ یعنی پچاس سال سے میں آگے نہیں جاؤ نگا۔ ہم پھر بھی اس کی سالگرہ مناتے، وہ کہتا میری پچاسویں سالگرہ ہے۔ اس سے کتنے لوگ پیار کرتے تھے۔ ایک دفعہ ہم گڑھی خدا بخش میں بھٹو صاحب کی سالگرہ کیلئے موجود تھے۔ گزرتے ہوئے ہر شخص منوبھائی سے ہاتھ ملا کر کہتا ’’میرا مسئلہ بھی باتیں کرتے ہوئے بی بی کو بتا دیجئے گا۔ بی بی ہمیشہ مجھے اور منو بھائی کو ہیڈ ٹیبل پر اپنے ساتھ بٹھاتیں۔ ہم سے ایسے بات کرتیں جیسے پرانے دوست دل کی بات کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب بھی تو ہم سے ملنے پہلے ٹی۔ ہاؤ س اور پھر جب ہم لارڈز میں بیٹھنے لگے تو وہاں ملنے آجاتے تھے۔ اب نہ وہ ٹی۔ہاؤ س، نہ لارڈز اور نہ چڑیوں کا وہ چنبھا رہا۔ میں اسلام آباد۔ بی بی شہید ہوگئی۔ جاوید شاہیں دریا خموشاں میں ڈوب گیا۔ شفقت اور شاہ جی نے اجازت چاہی۔ حفیظ الرحمان نے خدا حافظ کہا۔
ایسے عالم میں منو بھائی نے اپنی تنہا شاموں کو ان بچو ں کیلئے مخصوص کر دیا۔ جو تھیلیسمیا یعنی خون کے فساد میں مبتلا تھے۔ ایسا عموماً ان خاندانوں میں ہوتا ہے جہاں قریبی کزنز کی آپس میں شادی ہو۔ ہمارے دیہاتوں میں تو پرایوں میں بیاہتے ہی نہیں ۔ منو بھائی نے سندس فاؤ نڈیشن بنائی۔ بیماری میں مبتلا بچوں کو خون چڑھاتے وقت منو بھائی ان کے سرہانے بیٹھ کر ، کبھی لطیفے اور کبھی کہانیاں سناتا۔ وہ بچے بھول ہی جاتے کہ ان کا خون بدلا جا رہا ہے۔ میں نے گیچ اورمہر گڑھ کے علاقے میں دیکھا وہاں پچاس فی صد بچے تھیلیسمیا کی بیماری میں و ہی خاندان در خاندان شادیوں کی وجہ سے مبتلا تھے۔ میں سب عورتوں کو اکٹھا کر کے اس موضوع پر باتیں کرتی، تو وہ سب یک زبان ہو کر کہتیں ’’ہمیں کیا کہہ رہی ہو، ہمارے بڑوں کو بھی سمجھاؤ ،وہ تو جائیداد اکٹھا رکھنے کیلئے یہ شادیاں کرتے ہیں۔
منو بھائی کو حنیف رامے نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران پلاٹ دیا تھا۔ رامے صاحب نے مجھے اور بہت سے ادیبوں کو اور صحافیوں کو باقاعدہ کالونی بنا کر اقبال ٹاؤ ن میں پلاٹ دئیے تھے۔ یہ سارے اقبال ٹاؤ ن والے، چاہے تابش ہو کہ ڈاکٹر سلیم اختر، میرے آدھے گھنٹے کے بلاوے پر آجاتے، شکر گزار ہوتے کہ عینی آپا سے ملوا دیا، کہ نارنگ صاحب یا اختر الایمان سے ملوادیا۔ منو بھائی، اصغر ندیم سید کی موٹر سائیکل پربیٹھ کر تو کبھی جاوید شاہیں کی گاڑی پر آجاتے تھے اس زمانے میں موٹر سائیکل عطاء الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، حسن رضوی اور اصغر ندیم سید کے پاس ہوتی تھیں۔ پھر یہ بڑے ہوتے گئے۔ ان کے رتبے بھی بلند ہوتے گئے۔ گاڑیاں بڑی سے بڑی ہو گئیں۔ دوستوں کے دائرے بدلتے گئے، حسن رضوی کےپاس پہلے گاڑی آئی۔ وہ بہت تیز چلاتا اتنا تیز کہ موت نے آکر پھرتی سے اسے گلے لگا لیا۔ٹی ہاؤ س میں شام کے وقت ، منو بھائی اور جاوید شاہیں سائیکل والوں کے پاس گاڑی کھڑی کر کے سامنے سے پیدل چلتے ہوئے آرہے تھے۔ میں ، الطاف قریشی، یونس جاوید اور نجانے کتنے لوگ بیٹھے تھے۔ میرے منہ سے نکل گیا ’’اے لو سامنے سے تھتھوڑا گروپ آرہا ہے‘‘۔ یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب لاہور میں ہتھوڑا گروپ کا بہت شہرہ تھا۔ منو بھائی نے یہ نام سن کربا لکل برا نہیں منایا۔ وہ اپنے بارے میں ایسے لطیفے بھی سن کر ہنس دیتا تھا جب مرحوم دلدارپرویز بھٹی نے اس سے پوچھا تھا ’’منوبھائی آپ کو بیگم کس نام سے پکارتی ہیں۔ اور منو بھائی نے ہنس کے کہہ دیا تھا، وہ منو پیارے کہہ دیتی ہیں۔
ویسے تو سب ہی والدین اپنی اولاد کو پالنے میں مستعد رہتے ہیں۔ منوبھائی نے گڑیا اور کاشف خاص کر، بہت بیماری کاشف کی سہی، بچوں کی شادیوں میں، کاشف کے ساتھ ساتھ گلے میں ہار ڈالے ، منو بھائی، خوشی سے نہال چل رہا تھا۔ پھر وہ خوشی بھی دیکھنے والی تھی جب وہ دادا بنا۔ ایک دفعہ پھر منو بھائی بچہ بن گیا تھا۔
منو بھائی نے دوستوں کے مرنے پر تعزیتی کالم بے انتہا محبت کے ساتھ لکھے۔ میں اسے ماڈرن راشد الخیری کہتی تھی۔ اس نے پچھلے دنوں ’’ میں تے منو بھائی‘‘ کے عنوان سے اپنی یاد داشتیں لکھنی شروع کی تھیں۔ وہ ابھی تک نہیں بھولا تھا کہ کس طرح ایک کمرے میں وہ فتح محمد ملک اور شفقت تنویر مرزا، ایک سو روپے تنخواہ میں خوشی خوشی گزر کرتے تھے اور تڑاپڑ، تڑاپڑ (یہ منو بھائی کافقرہ تھا) سارے راولپنڈی شہر میں گھوما کرتے تھے۔ پھر جب ہم لوگوں کی لاہور میں پانچ سو تنخواہ ہوئی تو ریگل چوک میں بیٹھ کر، آئس کریم کھاتے تھے۔ منو بھائی تمہاری دونوں نظمیں ’’اجے قیامت نئیں آئی‘‘ اور ’’احتساب کے چیف کمشنر صاحب بہادر ‘‘کوئی آج کے چیف جسٹس کو لکھ کر بھیج دے تا کہ افسروں کی رعونت اور بعض سیاست دانوں کی بدعنوانیوں کے محاسبے کو پڑھ سکیں۔
( بشکریہ : روزنامہ جنگ )