زندگی موت روز کا کھیل ہے۔یہ ایک ایسی آنکھ مچولی ہے جس میں دونوں ایک دوسرے کو پکڑنے کی کوشش میں رہتے ہیں ۔زندگی ایک درخت کی مانندہے جس پرنئی ٹہنیاں ،کونپلیں اورپھولوں کی نموکے ساتھ ساتھ اپنی معیادپوری کرلینے والے پھل ،پتے اورشاخیں جُداہوکرریسائیکلنگ کے طویل سفرپرنکل جاتے ہیں۔کچھ بیج اور کچھ کھاد کی صورت زندگی کے تسلسل میں اپنا کردار اداکرتے ہیں۔کائنات کے ہرذرے میں زندگی موجود ہے۔بظاہرساکن نظرآنے والی چیزوں کے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ اور بننے بکھرنے کا عمل جاری رہتا ہے یعنی حرکت ہو رہی ہوتی ہے مگر محسوس نہیں ہوتی ۔ریت سے پتھراورپتھروں سے چٹانیں بنتی ہیں۔مٹی کے ذرّے پہاڑوں کا روپ دھار لیتے ہیں اورزمین کے توازن کوقائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔یہ کلیہ صرف جمادات اور نباتات تک محدود نہیں بلکہ حیوانوں اور انسانوں پربھی صادق آتا ہے۔وہ بھی زندگی کے لامتناہی سفرکے مسافرہیں۔ریاضت اورجدوجہدسے انسانی شعورترقی کی منزلیں طے کرتا اگلے پڑاﺅ کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔ ہماری سماعت ہرروز آنے اورجانے والوں کا تذکرہ سنتی ہے۔ان میں ہمارے عزیز ،رشتہ دار بھی ہوتے ہیں جن کا صدمہ ہمارا دل جھیلتا ہے مگرکچھ لوگ جن سے ہمارا اخلاص کا رشتہ ہوتا ہے وہ ہمارے احساسات کوزیادہ گھائل کرجاتے ہیں لیکن اس سے ہٹ کرکچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جواپنے آدرش،انسانی اقدار اور اصولوں کی وجہ سے ایسی حیثیت اختیارکرلیتے ہیں کہ اُن کا بچھڑنا ہمیں ڈانواں ڈول کردیتا ہے۔پورے معاشرے کو ملول کردیتاہے۔
منو بھائی بھی ایک ہستی کانام ہے۔لاہورنے ایک ہی منیر(منیرنیازی)کے سرپربادشاہی کی پگ رکھنی تھی سو اس منیرحسین کومنو بھائی کا لقب عطاءہوا۔لفظ بھائی نے اُنھیں زندگی اورصحت کی اذیتیں جھیلنے والوں کے لیے سایہ دار درخت بننے کی صلاح دی تو وہ تھیلےسمیا جیسے مہلک مرض میں مبتلا بچوں کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا بن گئے۔جن کی سانسوں کے لیے ہرروز تازہ خون کی ضرورت تھی لیکن نیک نیتی نت نئے وسیلے پیدا کرتی رہی۔ نصف صدی سے زیادہ صحافت اور کالم نگاری سے وابستہ رہنے والا منو بھائی ہمیشہ ایک نظریے سے وابستہ رہا۔معاشرتی اونچ نیچ کے خاتمے اور انصاف کے حامل معاشرے کے لیے کوشاں منوبھائی کو کبھی سمجھوتے کے کسی کاغذ پردستخط نہ کرنے پڑے۔ترقی پسند سوچ ،روشن خیالی اور احترام ِ آدمیت کے تصورات اُنھیں بھٹو کے قریب لے گئے۔جمہورکی معاشی آزادی اورسماجی وقارکے لیے کئی محاذوں پربرسرِپیکار رہے۔انھوں نے ڈرامے ،شاعری اورکالم نگاری کے ذریعے معاشرے کا اصل چہرہ بے نقاب کیا۔کبھی نرم لفظوں میں اصلاح کی بات کی تو کبھی جارحانہ انداز میں احتساب کے صاحب بہادر سے طبقاتی تقسیم کے حوالے سے روا رکھے جانے والے سلوک کی باز پرس کی اور پھرآخرمیں صرف باتیں کرنے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہنے کی بجائے کچھ کرنے اور جابرقوتوں کے خلاف لڑنے کااعلان کیا۔اُن کی مخاطب جابر طاقتوں میں ہروہ فرداورطبقہ شامل تھا جو کسی نہ کسی حوالے سے انسانوں کے استحصال میں شریک ہو۔
منو بھائی خوش قسمت تھے جنھیں ہرطبقہ ءفکر کے لوگوں کی محبت ملی۔ہرپارٹی کے لوگ اُنھیں ان کے فلسفہ حیات اور نظریات کے باعث تکریم کی نظر سے دیکھتے تھے۔اُن سے ملنا پسندکرتے تھے اُن کے تلخ مگرسچے جملے اس لئے برداشت کرلئے جاتے تھے کہ وہ کسی ایجنڈے کا حصہ نہیں تھے بلکہ خلقت کی فلاح اُنھیں اس طرف راغب کرتی تھی۔وہ یوں بھی خوش قسمت تھے کہ زندگی اپنے نظریات کے مطابق جی کرگئے۔ہمیشہ حق اور سچ کا عَلم بلند رکھا ۔ہرلمحہ اپنے عمل کا پہرا دیا۔عورتوں کی عزت اوراُن کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں میں ہمیشہ پہلی صف میں کھڑے نظرآتے ۔مردعورت کی برابری والی منطق سے بالکل متفق نہیں تھے ہمیشہ عورت کو فوقیت دی۔ہرروپ میں اُس کے کردارکوسلام پیش کیا۔نوجوانوں کا حوصلہ بڑھانے اور بچوں کا مورال بلند کرنے کے لیے وہ اُنھیں زیادہ ذہین اور سمجھدار کہتے تھے۔اُن کا کہنا تھا کہ اگرکوئی بچہ اُن سے عمرمیں سترسال چھوٹا ہے تو وہ دراصل اُن سے عقل ودانش میں سترسال آگے ہے کیونکہ ہرنیا آنے والا بچہ وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق زیادہ ذہانت لیکر پیدا ہوتا ہے۔ہرکسی سے اپنائیت کا اظہار کرنا،ملنے والوں کا ہاتھ چومنا۔بچوں کی طرح شرارت کرنا اورمسکرانا اُن کی عادت تھی اس لئے ہرکوئی اُنھیں اپنا سمجھتا تھا جسے دیکھ کر دل خوش ہو اور جس کی موجودگی محفل کو معتبرکردے۔وہ کئی دفعہ بیمار ہوئے۔کچھ سال پہلے تو اُن کے بچنے کی اُمید ہی نہ تھی۔ہرلمحہ سماعت کسی بری خبرکے لیے تیارتھی مگرپھروہ سنبھلتے چلے گئے۔کچھ بہترہوئے تومیں اُن کے گھرگئی بڑی دیراُن سے باتیں ہوتی رہیں۔پھروہ صحت یاب ہوگئے اورمحفلوں میں آنے جانے لگے۔کئی دفعہ بیماری نے اُن پرحملہ کیا۔وہ بسترسے جا لگے ۔ہسپتال میں داخل رہے سوشل میڈیا اور اخبارات میں اُن کے لیے دعاﺅں کی درخواستیں موصول ہوتی رہتی مگر اُن کا حوصلہ بیماری کوشکست دے کراُنھیں پھرفعال کردیتا۔ابھی دو ماہ قبل اُنھوں نے ادبی محفلوں میں شمولیت کے لیے فیصل آباد ، میاں چنوں اور دیگر شہروں کا سفر کیا۔میں اُن کا انٹرویو کرنا چاہتی تھی ۔ایک محفل میں ذکرکیا۔ہفتے کوفون آگیا کب آرہی ہو۔میں نے جلدی آنے کا وعدہ کیا۔اُنھوں نے کئی فون کئے مگرمیری بے معنی مصروفیت نے مہلت ہی نہ دی اور وہ اچانک بن بتائے اگلے سفر پرروانہ ہوگئے ۔بیماری توکئی سالوں سے اُن کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی مگروہ اُکھڑتے سانسوں کی حالت میں بھی مایوس نہ ہوئے نہ ہی بیماری کی اذیت اُن کے مزاج پراثرانداز ہوئی ۔گذشتہ سال اُنھیں فروری میں پلاک حکومتِ پنجاب کی طرف سے پرائیڈ آف پنجاب سے نوازا گیا۔ابھی چھ فروری کو اُن کی سالگرہ آرہی تھی اور ہم اُس کا اہتمام بھی کررہے تھے مگر اِس بار وہ اپنے دوست شفقت تنویر مرزا کے ساتھ ہوں گے۔دونوں چھ فروری کو پیدا ہوئے تھے مگرہم اپنے دُکھ کی تلافی کیسے کریں۔شہرمیں کوئی اُن جیسا نہیں۔جس سے اپنا دکھ بیان کیا جاسکے جس کی پیروی کی جاسکے جس سے زندگی کے معنی اخذ کئے جا سکیں جس کے لفظوں کی لو سے راستہ تلاش کیا جاسکے۔ منوںبھائی جیسے لوگ جو مثالی کردار کے حامل ہوں جن کا ہرعمل انسانیت کی بقاءاور وقارسے جُڑا ہو اُن کا چلے جانا پورے معاشرے کوسوگوارکردیتا ہے اس لئے کہ نظریاتی لوگوں کے وجود سے ہی دنیا رہنے کے قابل ہے ۔سوچنے کی بات یہ ہے کے آج ہم میں منّو بھائی جیسی فکروالے کتنے لوگ ہیں اورخوشی کا احساس بھی کہ ہم نے بحثیت قوم منّو بھائی کو پہچانا،اُنھیں چاہا،اُن کے نظریات کو سلامی دی اور اُن کے لفظوں کا تعاقب کرتے ہوئے اپنا احتساب کرنے کی کوشش کی۔جولوگ نظریے کی بات کرتے ہیں وہ منّو بھائی کی زندگی کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ نظریہ کیا ہوتا ہے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے والا ذاتی مفادات سے کس قدر مبرا ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ نظریہ کبھی نہیں مرتا۔منّو بھائی بھی زندہ ہیں ۔اُن سے ہماری محبت تقاضا کررہی ہے کہ تھیلسیما کے مریضوں پردستِ شفقت رکھیں اور منّو بھائی کو یقین دلائیں کہ اُن کا کام چلتا رہے گا۔
( بشکریہ : روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ