گزشتہ سے پیوستہ
میرا خیال ہے ملتان میں کتب کی فراہمی کے حوالے سے خان صاحب سے زیادہ فیض رساں شاید ہی کوئی اور شخصیت ہو۔ ستر ہی کی دہائی میں انھوں نے لطیف عارف کے نام سے امروز اخبار میں لکھنا شروع کیا۔ اس مرتبہ انھوں نے شخصی خاکوں کے ذریعےنامورانِ ادب سے اپنی ذہنی اور قلبی وابستگی کی حامل یادداشتوں کوضبط تحریر میں لانا شروع کیا۔ ان احباب میں جہاں مجنوں گورکھپوری، علی سردار جعفری،راجندر سنگھ بیدی اور سجاد باقر رضوی جیسے احباب شامل ہیں وہاں بیشتر خاکے ملتان کے شاعروں اور ادیبوں کے لکھے گئے۔ ”اِن سے ملیئے“ کے نام سے اُن کی کتاب ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اتفاق سے ان خاکوں کی پہلی اشاعت کی تدوین راقم السطور نے غالباً 1995 ء میں کی تھی۔ یہ خاکے کیسے تلاش کیے گئےاور ان بکھرے ہوئے کاغذوں کو کس طرح یک جا کیا گیا یہ الگ ایک کہانی ہے۔
خان صاحب بظاہر مردم بیزار طبیعت کے مالک نظر آتے تھے کیونکہ جب سے میں نے انھیں دیکھنا شروع کیا ہے وہ اپنے گھر تک ہی محدود رہتے تھے۔ ”گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے“ اُن کا تقریباً تکیہ کلام تھا مگر خان صاحب کی گوشہ نشینی بہت بعد کا قصہ ہے۔ ایک زمانے میں وہ ملتان کی ادبی محافل کا ناگزیر حصہ ہوتے تھے۔ سن ساٹھ کے ابتدائی عشرے میں وہ رائیٹرز گلڈ کے اجلاسوں میں باقاعدہ شریک ہوتے تھے اور گلڈ کے تحت ہونے والے یادگار پروگراموں کے روح رواں تھے۔ وہ سہیل ربانی کے نام سے اخبار میں گلڈ کے اجلاسوں کی باقاعدہ کارروائی لکھا کرتے تھے جس میں وہ کسی نہ کسی شخصیت یا واقعہ کو لے کرطنزیہ چٹکیاں بھرا کرتے تھے اور بعض اوقات ان کے کالم کے جواب میں ابو سہیل کے نام سے جوابی کالم بھی شائع ہوا کرتا تھانیز خان صاحب کے حوالے سے ڈاکٹر انوار احمد کے اخباری شذرات بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ”چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسدؔ“ والا معاملہ گلڈ کے اجلاسوں تک قائم رہا۔ گلڈ کے متوازی جب اردو اکادمی کی داغ بیل ڈالی گئی تو خان صاحب اس میں بھی حصہ دار رہے۔ بعض احباب کا خیال ہے کہ اردو اکادمی کے آغاز کے حوالے سے خان صاحب کا کوئی تعلق نہیں بنتا، ممکن ہے ایسا ہی ہو تاہم میرے پاس خان صاحب کا وہ استعفیٰ موجود ہے جو انھوں نے اردو اکادمی کی رکنیت سے دیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ خان صاحب اور سید قدرت نقوی کے وہ خطوط بھی موجود ہیں جو اُن کے استعفیٰ کے بعد اردو اکادمی کے بقیہ جات کے حوالے سے ایک دوسرے کو لکھے گئے۔
خان صاحب کا خیال تھا کہ اردو اکادمی سے اُن کے مستعفی ہونے کا سبب عرش صدیقی صاحب تھے جو گلڈ کا الیکشن ہارنے کے بعد گلڈ کو خدا حافظ کہہ کر اردو اکادمی میں شامل ہوئے تھے۔ یوں تو عرش صاحب کے ساتھ ابتدا میں ان کی خاصی دوستی رہی مگر بعد میں ”فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا“ کے مصداق بول چال کا سلسلہ بند رہا۔ جس زمانے میں ہم خان صاحب کے قریب تھے وہ زمانہ عرش صاحب مخالفت کا زمانہ تھا۔شاید یہ 94۔1993ء کی بات ہے ایک مرتبہ میں خان صاحب کو بہلا پھسلا کر اردو اکادمی کے اجلاس میں لے گیا۔ بدقسمتی سے اس اجلاس میں عرش صاحب بھی شریک تھے اور بات چل رہی تھی ڈاکٹر صلاح الدین حیدرکے حوالے سے۔ میری خواہش تھی کہ خان صاحب خاموش رہیں مگر بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ بات صلاح الدین حیدر کی ہو اور اجلاس میں عرش صاحب بھی ہوں تو خان صاحب کو کون خاموش کروا سکتا تھا۔ بحث کے دوران اچانک خان صاحب نے گفتگو کی باگ اپنے ہاتھ میں لی۔”صلاح الدین حیدر نے کبھی حالات کے سامنے سر نہیں جھکایااور نہ ہی کبھی سمجھوتا کیا یہ نہیں کیا کہ مارشل لا کے دوران اپنے ڈرائنگ روم کو تفہیم القران سے سجا لیا ہو۔“خان صاحب کا یہ جملہ محفل میں بم کی طرح گرا، اکثر حاضرین کے چہروں پر ناخوشگواریت کے آثار نمایاں تھے تاہم عرش صاحب نے اس پر کسی قسم کا رد عمل نہیں دیا۔ اجلاس کے بعد بہت دنوں تک خان صاحب اس جملے اور لوگوں کے تاثرات کا لطف لیتے رہے۔ عرش صدیقی تو خیر خان صاحب کے تند و تیز جملوں کی زد میں رہتے تھے۔ عرش صاحب کی کتاب ”محبت لفظ تھا میرا“ جب اشاعت پذیر ہوئی تو اس کی ایک کاپی خان صاحب کو بھی بھجوائی گئی۔ ”ارے میاں کتاب کا سائز بڑا کر دینے سے شاعر کا شعری قد بڑا نہیں ہو جاتا۔“ یہ وہ فوری ردعمل تھا جو خان صاحب کی فطرت کے عین مطابق تھا۔
اردو اکادمی کے بعض ممبران کے سخت گیرشورائی رویے کے سبب جب مارچ 1995ء میں ملتان آرٹس فورم کا قیام عمل میں آیا توخان صاحب اس کے بنیادی اراکین میں شامل تھے۔فورم کا اساسی اجلاس ہو یا انتظامی یا پھر ہفت روزہ تنقیدی اجلاس ہر موقع پر خان صاحب فورم کے دوستوں کے ساتھ رہے خصوصاً خالد سعید کے ساتھ ان کی شرارت آمیز محبت بھری چھیڑ خانی محفل کو زعفران زا بنا دیتی تھی۔ فورم کے حوالے سے ان کی کمٹ منٹ بہت گہری تھی۔ فورم کے جریدے ”سطور“ اور اس کی مختلف اشاعتوں میں ان کا بہت تعاون رہا نیز رشید احمد صدیقی کے مکاتیب، مضامین اور بعد ازاں خان صاحب کے اپنے مکاتیب بعنوان ”انشائے لطیف“ کی پانچوں جلدیں سمیت لگ بھگ بیس کتابوں کے ناشر کے طور پر انھوں نے ملتان آرٹس فورم کے نام ہی کو چنا۔ وہ جب تک صحت مند رہے فورم کے اجلاسوں میں ہر ممکن کوشش کر کے شریک ہوتے رہے۔ فورم کے قیام کے کچھ ہی عرصہ کے بعد بعض دوستوں کے رویے کے سبب انھوں نے فورم کی ممبر شب سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس موقع پر ”مار آستین“ ایسے لوگوں نے خان صاحب کو خوب بھڑکایا مگر خان صاحب لوگوں کی باتوں میں آنے والے کب تھے۔ کچھ دنوں کے بعد جب خان صاحب کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو خالد سعید اور میری درخواست پر نہ صرف استعفیٰ واپس لیا بلکہ فورم کو فعال بنانے میں اہم کردار بھی ادا کیا۔
( جاری)
فیس بک کمینٹ