شاکربھائی خوش رہو
خلاف معمول اس مرتبہ تمہاراخط جلدی مل گیا۔ پڑھ کر حالات کا اندازہ ہوا کہ اگر کوئی پاکستانی غلط وقت پر خط پوسٹ کررہاہو (خواہ دن کاوقت ہی کیوں نہ ہو)تو پولیس والے اسے پکڑ لیتے ہیں۔یار تم عجیب ملک میں جاپھنسے ہو۔ پردیس ہی کاٹنا تھا تو کسی آزاد ملک میں تو جاتے جہاں جمہوریت ہوتی ، بنیادی حقوق ملتے۔ سعودی عرب کی بجائے جرمنی چلے جاتے۔ امریکہ ، فرانس یا کینیڈا کارخ کرتے۔ سرسبز علاقے ،سرسبزچہرے، چاہوتو چہرہ شماری کرو، چاہو تو بغل میں دبا کرکسی کونے میں بیٹھے رہو بلکہ لیٹے رہو۔ اول تو میرا مستقبل قریب یا بعید میں پاکستان چھوڑنے کاقطعاً کوئی ارادہ نہیں کہ مجھے اپنے مستقبل کی کبھی بھی فکر نہیں رہی لیکن اگر کبھی وطن بدر ہونابھی پڑا تو کسی یورپی ملک کارخ کروں گا۔ کم ازکم پابندیاں تو نہ ہوں گی۔تم نے بتایا ہے کہ سعودی عرب والوں نے جنت البقیع کھول دی۔ ان سے اتنی فراغ دلی کی توقع تو نہیں کی جاسکتی ۔
اب اِدھر کی خبریں سنو، گزشتہ خط ملتان سے آکر لکھاتھا۔ اس مرتبہ ابھی تک ملتان نہیں گیا۔ اگرچہ آج اتوار ہے اور 9نومبر کی تعطیل بھی ہے چاہتا تو کل کی چھٹی لے کرجمعرات کو ملتان جاسکتا تھا مگر جان بوجھ کر نہیں گیا۔ دید شنید کا کالم ہلکا اس لیے کردیا کہ ملتان میں ہمارے ”دوست“ مشکلات کاشکارہوجاتے تھے اور ان سے گلے کرتے تھے ۔مصدق اقبال طارق جامی کا برادرنسبتی ہے۔ طارق جامی کے بارے میں بھی میں نے کالم میں کچھ لکھا تھا لیکن اس کے انتقال کے بعد وہ جملے حذف کردیئے۔ اس مرتبہ دید شنید کا آدھا کالم سیاسی کردیا ہے اورآدھا ادبی ہے۔ سیاست رفیق ڈوگر کا تقاضاتھا اور ادب ہمارا مسئلہ ہے۔ ریڈیو ملتان کے مشاعرے میں نہ میں نے شرکت کی نہ سننے کاموقع ملا۔ جس روز ملتان میں وہ مشاعرہ تھا میں اسی روز شام کو لاہور آگیا۔اب تمہیں تفصیل کیا لکھتا؟ ہوتل بابا نے اس مرتبہ مشاعرے کی معمولی سی روداد لکھ دی ہے۔ آنے والے کالم کا ایک جملہ تمہاری نذر،” جس طرح اشفاق احمد اوربانوقدسیہ باہمی صلاح مشورے کے بعد اچھا ادب تخلیق کرلیتے ہیں اسی طرح عاصی کرنالی اور ثمربانوہاشمی بھی باہمی رضا مندی سے کچھ نہ کچھ تخلیق کرتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ لوگ اشفاق احمد اوربانوقدسیہ کی تخلیقات کو معیاری قراردیتے ہیں۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں تک خط لکھنے کے بعد میں آوارگی پر چلاگیاتھا۔ابھی واپس آیا ہوں۔خط کاپہلا حصہ جمعہ کی صبح بارہ بجے کے قریب لکھاتھا اور اب تقریباً رات کے سوا گیارہ بجے کا وقت ہے۔اب تمہیں اپنی آوارگی کی روداد سناتاہوں ۔ یہاں سے میں” آئینہ ادب “نامی پبلشر کے پاس گیا ۔دفتر کا ایک بل وصول کرناتھا۔ وہیں فارغ بخاری مل گئے۔ ان کے ساتھ ہیلو ہیلو کی ۔پھر ایک اورصاحب ہیں حامد حسن حامد ۔یہ ”شام وسحر“ والے خالد شفیق کے دوست ہیں۔ ان کے پاس بیٹھا رہا۔ چائے پی ،گپ لگائی اور پھرایک ہوٹل میں جا بیٹھاجہاں ٹی وی بھی تھا اورکرکٹ میچ ہورہاتھا۔ لاہور ٹیسٹ کاتیسرا دن تھا۔ ویسٹ انڈیز والوں کی غنڈہ گردی اور پاکستان کی شکست دیکھی۔ انہوں نے شکست کابدلہ لینے کے لیے آج پاکستانیوں کو بہت باؤ نسر مارے۔ چار سوا چاربجے میچ ختم ہوا تو میں گھومتا پھرتا فیروز سنز کے شوروم میں چلاگیا ۔ کوئی آدھ پون گھنٹہ کتابوں کی ورق گردانی کی ۔اسی دوران وہاں ڈاکٹروزیرآغا اور شہزاد احمد آگئے۔ ان سے سلام دعا ہوئی۔ وہ کہنے لگے ہم الحمرا جارہے ہیں۔ وہاں اسلامی کتب کی نمائش ہے۔ آپ بھی چلو۔ ویسے تو میں شاید کبھی نہ جاتا لیکن اب ان کاکہا کیسے ٹال سکتا تھا۔سو ان کے ساتھ الحمرا چلاگیا جہاں انورسدید بھی موجودتھے۔ یہ تقریب ذوالفقارتابش نے نیشنل بک کونسل کے زیراہتمام کرائی تھی۔ صدارت ڈاکٹروحید قریشی کی تھی۔ وحید قریشی صاحب نے تمام وقت اپنی بیماری کی روداد سنائی۔ کہنے لگے میں انتہائی کوشش کے باوجود اپنے موٹاپے میں تین انچ کی کمی کرلی ہے۔ اگر میرا پیٹ تین انچ مزید کم ہوگیا تو پھر میں انشائیے بھی لکھ لیاکروں گا۔ ڈاکٹر وزیرآغا نے جواب دیا کہ جناب اس کے لیے آپ کو کم ازکم سوا انچ مزید پیٹ کم کرناپڑے گا۔ میں نے کہا تین انچ کی کمی سے تو آپ نثری نظم بھی لکھ سکیں گے۔ شہزاد احمد کہنے لگے نہیں جی نہیں نثری نظم کے لیے تو پیٹ نہیں کمر تین انچ کی ہونی چاہیے۔وہاں سے کوئی ساڑھے چھے بجے فارغ ہوئے۔آغاصاحب اور انورسدید صاحب سے اجازت لی۔ انورسدید کہنے لگے کیوں بھئی ہمارے ساتھ جانے کا ارادہ نہیں؟ ہم اقبال ٹاﺅن کی طرف ہی جارہے ہیں۔ میں نے کہا نہیں ،آج مجھے آوارہ گردی کرنی ہے۔ وہاں سے پاک ٹی ہاﺅس آ کر دم لیا ۔کچھ لوگ وہاں موجودتھے ۔ساڑھے آٹھ بجے وہاں سے اٹھا اور اقبال ٹاﺅن کارخ کیا۔ وہاں فلڈ لائٹس میں ایک کرکٹ ٹورنامنٹ ہورہا ہے۔ وہ نظارہ کرکے اب گھرآیا ہوں اور تمہارے خط کاجواب دے رہا ہوں۔ دیکھا کیسی بہت سی خبریں لایا۔
پرسوں شام لکشمی چوک میں ایک آدمی فٹ پاتھ پر ایک بنچ پر چوکڑی جمائے کھانا جارہا تھا ۔مجھے شبہ ہوا کہ یہ ڈاکٹرفرحت عباس ہے۔ قریب گیاتووہی تھا۔ اس سے آٹھ نوماہ بعد ملاقات ہوئی ۔ بتا رہا تھا 20نومبر کواس کی شادی ہے۔ تمہارا بھی پوچھ رہا تھا۔ میں نے کہا فکر نہ کرو جنوری میں اس کی بھی شادی ہے۔ گزشتہ پندرہ بیس روز سے رات کو محض دویاتین گھنٹے نیند آتی ہے جس کی وجہ سے سر میں مسلسل درد رہنے لگا ہے۔ تمہارے خط سے جی بہل جاتا ہے۔ دوماہ سے کوئی غزل نہیں کہہ سکا۔ اب رائے ونڈ والی لوٹا کانفرنس کا ذکر سن لو۔ بس یہ سن لو وہاں لوٹوں کا سالانہ جمعہ بازار لگتا ہے۔ میرا کمرہ جس محلے میں ہے وہ ملتان روڈ پرواقع ہے اوررائے ونڈ جانے کاوہیں راستہ ہے۔ پشاور سے پٹھان مولویوں کی بسیں رائے ونڈ جاتی ہیں ۔پولیس والے ان کی چیکنگ نہیں کرسکتے۔ ان بسوں میں ہالینڈ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے بھی مولوی آتے ہیں۔کچھ اخبارات نے چرس اورہیروئن سمگلنگ کی خبریں بھی چھاپیں پھر اگلے روز تردید کرناپڑگئی۔سیاست کا حال یہ ہے کہ پرویز الہی اور نوازشریف اقتدار کے لیے جھگڑ رہے ہیں۔ دونوں وڈیرے ہیں۔ ویسے نوازشریف نے بھی کمال کیا ہوا ہے۔ چار شادیاں کرچکا ہے اور باقی کا پتا نہیں۔ خودیہ لوگ گوالمنڈی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ اچھابھائی اب اجازت ۔اپنا خیال رکھنا
والسلام
تمہارا رضی
9نومبر 1986
، خط کل پوسٹ کرناتھا دفتر پہنچاتویاد آیا کہ خط تو گھر ہی رہ گیا۔ سو آج ارسال کررہاہوں۔
11نومبر 1986