جب گورنر جنرل غلام محمد نے قومی اسمبلی تحلیل کی تو ملک کے طول و عرض سے انھیں مبارک باد کے تار( ان دنوں ای میل اور وٹس اپ موجود نہیں تھے) اور خطوط موصول ہوئے تھے اور اخبارات نے ان کے فیصلے کی تائید میں ایڈیٹوریل لکھے تھے۔ سیاست دانوں نے اسے درست سمت میں قدم قرار دیا تھا۔ پھر جب جنرل ایوب نے آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو انھیں بھی عوام کی ّبھاری تعدادٗ نے خوش آمدید کہا تھا اور ان کو حمایت کا یقین دلایا تھا اورتو اور بعد ازاں مادر جمہوریت کہلانے والی محترمہ فاطمہ جناح نے ان کے مارشل کو خوش آمدید کہا تھا۔ ایوب خان کی فوجی آمریت کے خلاف زبردست عوامی تحریک چلی لیکن جب جنرل یحیی خان نے آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا تو وہ تمام سیاست دان بشمول بھٹو نے جو جنرل ایوب کی آمریت میں پیش پیش تھے چوں تک نہ کی اور گھروں میں دبک کر بیٹھ گئےاور جماعت اسلامی اینڈ کو تو کھلم کھلا جنرل یحیی خان کو مجاہد اسلام قرار دے کر اس کی حمایت کا بیڑا اٹھا لیا تھا۔ بھٹو کی سول آمریت کا واویلا مچانے والے ولی خان اور نواب زادہ نصراللہ نے پوری کوشش سے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کی راہ ہموار کی اور جب جنرل ضیا نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو اس کی نہ صرف تائید کی بلکہ نواب زادہ کی پارٹی اور جماعت اسلامی نے تو مارشل لا وزارت میں شمولیت بھی اختیار کرلی تھی۔ جب پرویز مشرف نے نواز شریف کو گھر بھیجا تو بے نظیر تک اس کے اقدام کی تائید کی تھی اور اسے بروقت قرار دیتے ہوئے ملک کے تحفظ کی طرف قدم قرار دیا تھا۔ ہمارے بر وقت آمر اور آمریت کی مخالفت کرنے کی کوئی روایت نہیں ہے۔ جب سانپ گذر جاتا ہے تو ہم لکیر پیٹنے لگ جاتے ہیں۔ ہمارا ہر چیف آف آرمی سٹاف پروفیشنل سپاہی ہوتا ہے اور سیاست اور سیاسی امور سے لا تعلق لیکن پتہ اس وقت لگتا ہے جو وہ ّ اپنی پیشہ ورانہ کارکردگیٗ کا مظاہرہ کردیتا ہے اور ہم منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں
فیس بک کمینٹ