منظور وٹو نے عملی سیاست کا آغازجنرل ایوب خان کے بنیادی جمہوریت کے نظام میں یونین کونسل کا رکن بن کرکیا تھا وہ ضلع کونسل کے رکن اور بعد ازاں چئیرمین رہے۔ انھوں نے 1977 میں پیپلزپارٹی کا صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ حاصل کیا لیکن قومی اتحاد نے جب صوبائی الیکشن کا بائیکاٹ کیا توانھوں نے بھی اس الیکشن کا بائیکاٹ کردیا تھا۔۔پھر وہ قومی اتحاد میں شامل ہوکر پیپلزپارٹی مخالف تحریک کا حصہ بن گئے تھے۔
1970 کی دہائی میں جو کسی وجہ سے پیپلزپارٹی سے اختلاف رکھتا یا پیپلزپارٹی سے علیحدگی اختیار کرتا تھا اس کا ٹھکانہ تحریک استقلال ہوا کرتی تھی کیونکہ جنرل ضیا کے مارشل لا کے اوائل میں یہ تاثر سیاسی حلقوں میں بہت عام تھا کہ جنرلز تحریک استقلال کو اقتدار دینا چاہتے ہیں۔ ان دنوں اقتدار کے خواہش مند عناصر کی آماجگاہ اسی لئے تحریک استقلال بنی ہوئی تھی ۔ چنانچہ منظور وٹو بھی تحریک اسقلال کی صفوں میں شامل ہوگئے تھے۔ لیکن جب تحریک استقلال نے 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کا ایم آر ڈی کے فیصلے کے مطابق بائیکا ٹ کیا تو منظور وٹو نے اپنی پارٹی کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا تھا۔ الیکشن جیت کر وہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر بنے اور کم و بیش آٹھ سال تک اس عہدے پر براجمان رہے تھے۔
وہ پانچ مرتبہ وزیراعلٰی پنجاب بنے۔ ایک مرتبہ تو وہ صرف جونیجو لیگ کے 16 اراکین پنجاب اسمبلی کی حمایت سے وزیر اعلی پنجاب بنے تھے حالانکہ اس وقت پیپلزپارٹی کی پنجاب اسمبلی میں اراکین کی تعداد 100 سے زائد تھی لیکن مقتدر حلقوں کے انتظام وانصرام کی بدولت کیونکہ پیپلزپارٹی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ نہیں دینی تھی اس لئے اقلیتی پارٹی جونیجو لیگ کو وزارت اعلٰی دے دی گئی تھی۔ وہ جنرل ایوب خان کے سپورٹر تھے۔ انھوں نے 1977 میں جنرل ضیا کے مارشل لا کو خوش آمدید کہا تھا۔ وہ جنرل ضیا کی موت کے بعد فوج اور آئی ایس آئی کی سیاسی انجیئرنگ کا نہایت اہم ہتھیار تھے۔وہ نواز شریف کے ساتھی تھے لیکن جب صدر غلام اسحاق خان نے جنرل وحیدکاکڑ کی حمایت و تعاون سے نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا تو انھوں نے نوازشریف کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے صدر اسحاق کا ساتھ دیا تھا۔
ان دنوں بے نظیر نے نواز شریف کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔ اس لانگ مارچ کو فوج اور صدر غلام اسحاق کی حمایت حاصل تھی۔ اس لانگ مارچ کو منظم کرنے کے لئے فنڈز کابندوبست کرنے کے لئے منظور وٹو کے مطابق نامناسب اورناواجب ذرائع اختیار کئے گئے تھے۔ اس بارے میں منظور وٹو لکھتے ہیں کہ پنجاب بنک سے سینیٹر گلزار کے نام پر دو کروڑ کا قرضہ لینے کی درخواست دی گئی تاکہ لانگ مارچ کو منظم کیا جاسکے لیکن بنک کے چیرمین تجمل حسین نے قرضے کی یہ درخواست اس بنا پر مسترد کردی تھی کہ سینیٹر گلزار پہلے ہی بینک کے ڈیفالٹر تھے۔ فاروق لغاری کو بینک کی یہ حرکت بہت ناگوار گزری تھی۔ انھوں نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کے کہنے پر تجمل حسین 20 کروڑ روپے کا قرضہ دے دیتا ہے اور وزیراعلٰی وٹو کے کہنے پر دوکروڑ نہیں دیتا۔
پھر یہ لانگ مارچ کس طرح اختتام کو پہنچا تھا اس بارے میں لکھتے ہیں کہ اس دوران اچانک جنرل جاوید اشرف قاضی ڈی جی آ ئی ایس آئی فوج کا جہاز لے کر لاہور آئے۔بے نظیر صاحبہ کو ساتھ بٹھا کر اسلام آباد لے گئے جہاں انھوں نے لانگ مارچ کے پروگرام کو ختم کرنےکا اعلان کردیا تھا۔ منظور وٹو نے اپنا طویل سیاسی سفر جوڑ توڑ اور اقتدار کی دائیں طرف رہ کیا طے کیا ہے۔مقامی برادری کے نام پر بننے والی جھتہ بندی ہو یا جرنیلوں کی امداد و تعاون منظور وٹونے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے کے لئے کبھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔
1988 میں جنرل ضیا کی موت کے بعد جنرلز نے بے نظیر کو اقتدار تو دے دیاتھا لیکن پس پردہ سازشیں جاری رکھی تھیں ۔ منظور وٹو ان سازشوں کے حوالے سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے ایک دوست جو حکومتی ذمہ دار عہدے پر فائز تھےنے مجھے بتایا کہ چیف آف سٹاف مجھ سے ملنا چاہتے ہیں چنانچہ ان کی موجودگی میں میری جنرل اسلم بیگ سے ملاقات ہوئی جس میں جنرل حمید گل بھی شامل تھے۔ انھوں نے وفاقی حکومت ( وزیر اعظم بے نظیر) کی کارکردگی کا شکوہ کیا اور پنجاب حکومت ( نواز شریف ) کی تعریف کی اور مجھے بھی مضبوطی سے نواز شریف کا ساتھ دینے پر میرے کردار کو سراہا۔ان کی ملاقات کا جو لب لباب میں سمجھ پایا وہ ۔۔۔۔ نواز شریف کی مکمل سرپرستی کررہے تھے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
1988 کے الیکشن کے بعد نواز شریف کو کس طرح اور کس انداز میں پنجاب کے وزیراعلٰی کا حلف دلایا گیا اس کا بیان بھی بہت دلچسپ ہے۔ لکھتے ہیں کہ وزیر اعلی پنجاب کی تقریب حلف وفاداری کا وقت سہ پہر ساڑھے تین بجے اور وزیر اعظم کے حلف کا وقت ساڑھے چار بجے مقرر کیا گیا تھا۔ یہ عجیب و غریب اور انہونی بات تھی انتہائی عجلت میں حلف کی رسم ادا کی گئی۔اس وقت میاں نواز شریف نے نیلے رنگ کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ ان کے گھر سے شیر وانی اور کپڑوں کا اتنی جلدی میں منگوانا محال تھا اس لئے گورنر کی شیروانی اور ان کی سفید شلوار نامزد وزیراعلی نے پہنی اور نیلی قمیض بھاری بھر کم شیر وانی کے اند ر چھپ گئی۔ٗ منظور وٹو نے اپنے والد کے احمدی ہونے اور پوری زندگی احمدی عقائد پر ثابت رہنے کا اعتراف کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کے عقائد کوان کے اکابرین یا فرقوں کے بارے میں ان کو اس نام سے نہیں پکارنا چاہیےجس کو وہ ناپسند کرتے ہوں اور ملک میں بسنے والے تمام پاکستانیوں کو برابر کے حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔انہیں بغیر کسی مذہبی تفریق رنگ نسل تعمیر پاکستان میں حصہ دار بنایا جانا چاہیے۔کسی بھی تعصب کی بنا پر کسی بھی پاکستانی کو اس کے حقوق سے محروم کرنا درست نہیں ہے۔
منظور وٹو کی یہ سیاسی آپ بیتی ملک میں اقتدار کے حصول کے لئے ہونےوالے جوڑتوڑ اور پس پردہ عسکری قوتوں چالوں کا بیان ہے اس میں پاکستان کے کروڑوں عوام کی اپنے سیاسی معاشی اور انسانی حقوق کے لئے کی جانے والی جدوجہد کا کوئی ذکر نہیں ہے۔