اس کے چہرے پر ایک پراسرار سی خاموشی اور ایک خوفناک سی ویرانی جھلک رہی تھی۔ پندرہ سولہ سال کی بچی بڑھاپے کی تھکاوٹ لیے یوں چل رہی تھی جیسے اپنے ہی جسم کے بوجھ سے اکتا چکی ہو۔ سینے میں رکھے دکھوں کا بوجھ اس کی سانسوں کو بوجھل کر رہا تھا۔ اس کی کلائیوں پر موٹی موٹی رسیوں کے نشانات چھپائے نہیں چھپ سکتے تھے۔ چہرے کے سفید رنگ پر بکھری لالی ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آ رہی تھی ۔ اس کا جسم چھ ماہ کی قید کاٹ کر آزاد ہو چکا تھا مگر اس کی روح اب بھی اسیر تھی۔ نرم و نازک ہونٹوں کے بجائے سوجے ہوئے ہونٹ اس کے چہرے پر رکھ دئیے گئے تھے اور ان ہونٹوں کے درمیاں زبان پر خاموشی کے تالے پڑے تھے۔ بڑی بڑی دو نیلی آنکھیں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بغیر کسی اپنائیت کے تکے جا رہی تھیں۔ اس کے چہرے کے نقوش وہی تھے پر ان نقوش سے کسی نے زندگی نکال لی تھی۔ اس کا ہر نقش فریادی تھا ۔ نیلی جھیل جیسی آنکھوں کے دکھوں کی گہرائی کو ناپنے کے لیے کوئی آلہ درکار نہ تھا بلکہ ماں کی ایک نگاہ کافی تھی۔ ماں بیتابی سے اس کو سینے سے لگا رہی تھی لیکن دل نگار اپنی ماں کی بانہوں میں بت بنی کھڑی تھی ۔ اس کے ہاتھ ماں کو سینے سے لگانے کے بجائے بے حس و حرکت زندہ وجود کے ساتھ لٹکے جھول رہے تھے-
یہ لٹکتے جھولتے ہاتھ ماں کے محبت بھرے لمس سے ناآشنائی کا صاف اعلان رہے تھے۔ تمام خونی رشتے سفید کورے کاغذ کی مانند دکھائی دے رہے تھے۔ وہ بھول چکی تھی ان پرندوں کو جن کو آزاد کرنے کی خواہش دل میں لیے وہ اکثر کسی اسیر پرندے کو خرید کے چند لمحوں کے لیے ان کے نرم اور نازک پروں پر ہاتھ پھیرتی۔ پرندے اس کی ملائم ہاتھوں کی نرمی سے اتنے محظوظ ہوتے کہ جب وہ ان کو اڑانے کے لیے اپنے ہاتھ کی گرفت کو کمزور کرتی تو وہ اڑنا بھول جاتے۔ پھر وہ ایک جھٹکے سے انہیں فضا میں بلند کرتی، آزادی کی مبارک اپنی مسکراہٹ سے دیتی اور پرندے کی اونچی پرواز کو ان کے شکریہ کے طور پر قبول کرتی مسکراتی چلی جاتی تھی۔ اس کے تمام نخرے، تمام نزاکتیں اور تمام تر شرارتیں ان چھ ماہ نے اس کے دماغ سے کھرچ ڈالی تھیں۔ اس کو نہیں یاد تھا کہ وہ پھولوں کے درمیان ہوتی تو تتلیوں کو انتخاب کرنا مشکل ہو جایا کرتا تھا۔ بارش کی بوندیں جب اس مٹی کی گڑیا کو چھوتیں تو مٹی کی مہک سے فضا معطر ہو جاتی تھی ۔اس کا سفید اور گلابی رنگ سرخ انگارے برساتا جب اس کے قہقہے گھر کے کونے کونے میں رنگ بھرتے۔ اس کی آنکھوں میں چھ ماہ پہلے کا ایک دن منجمد تھا۔ ایک زور دار دھماکہ پھر اس کے بعد کٹی پھٹی لاشیں، لوگوں کی چیخ وپکار، دائیں سے بائیں بھاگتے لوگ، بکتر بند گاڑیاں، بڑے بڑے ٹینک ان کے اندر بیٹھے خونخوار نظروں والے درندے، بڑے بڑے کالے بوٹ پہنے بندوقوں کو لوگوں پر تانے گولیاں برسا رہے تھے۔ دل نگار کے پیر زمین پر جم سے گئے تھے۔ وہ بھی سانس روکے کسی گولی کی منتظر کھڑی تھی کہ اچانک اس کے لمبے سنہری بالوں کو پتھریلی سڑک پر بےدردی سے کھینچتے ہوئے اس کو ایک گاڑی میں ڈال دیا گیا۔ وہ بڑے بڑے کالے جوتوں کے درمیان نیم بے ہوشی کے عالم میں کئی گھنٹے پڑی رہی۔ جب اس کو ہوش آیا تو وہ ایک تاریک کمرے میں مٹی میں لتھڑی پڑی تھی۔ خوف سے اس کی چیخیں بھی نکلنے کو تیار نہ تھیں۔ چند لمحوں کے بعد پانی اور کھانا اس کے آگے ڈال دیا گیا پانی کو اس نے اپنی صراحی دار گردن سے غٹ غٹ کرتے ہوئے ایک سانس میں انڈیل دیا۔ ریشم سی انگلیوں پر مٹی اور خون کی تہوں کی پروا کیے بغیر کھانے پر ٹوٹ پڑی۔ کھانے کے بعد اس کے اوسان ابھی مکمل طور پر بحال نہ ہوئے تھے کہ ایک بار پھر دروازہ کھلا۔ اس لمحے اس کی چلتی سانسیں رک سی گئیں جب اس نے لمبے کالے بوٹ پہنے شخص کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ پھر دل نگار کے جسم کی معصومیت کو اس نے اپنے اندر کی حیوانیت سے روند ڈالا۔ ابھی وہ اپنی بے بسی اور تکلیف پر دھاڑیں مار مارکے رو بھی نہ پائی تھی کہ ایک کے بعد ایک اور درندہ اس کے پھول جیسے جسم کو مسلتا چلا گیا۔ بڑی بڑی بندوقوں والے بےضمیر لوگ اپنی اپنی تسکین کے لیے اس کے جسم کا استعمال کرنا اپنا حق سمجھنے لگے تھے۔ قید کے ایک ماہ تک تو اپنی ہمت کے مطابق ان سے مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر ہر بار اس کی ہار پر ہی مقابلے کا اختتام ہوتا۔ پھر اس اذیت ناک فعل کے دوران اپنے جسم کو لیے ٹھنڈے فرش پر پڑی رہتی۔ اپنی ہاتھوں کی مٹھیوں کو ادھ کھلی چھوڑ کر اپنی آنکھیں کھولے چھت کو تکتی رہتی۔ اس بے حسی یا بے بسی نے اس کو اس مار پیٹ سے بچا لیا تھا جو اکثر زور دار تھپڑ کی صورت میں انگلیوں کے نشانات اس کے جسم پر چھوڑ جاتے تھے۔ اس نیم مردنی کی وجہ سے اس کے سنہری بالوں کا گچھا بھی اب کم کم ان جلادوں کے ہاتھوں میں رہتا تھا۔ وہ ہر بار اس فعل کے مکمل ہونے کے بعد اپنے لاشہ کو اپنے ہی کندھوں پر لیے اٹھتی اور اپنے خشک حلق میں رکی ہوئی چیخوں، کرب اور بےبسی کے تماشے کو دو گھونٹ پانی سے نگلنے کی کوشش کرتی۔ اس کو زندگی کے بس یہ چھ ماہ یاد تھے باقی سب یادیں، رشتے ناتے بھول چکی تھی۔ وہ جب سے گھر آئی تھی دروازے کی ہر آہٹ پر چونک جاتی تھی- دن بھر اس کی ماں یادوں کے دروازے پر دستک دیتی رہی پر کسی یاد نے اسے بڑھ کر گلے نہیں لگایا دل نگار کو نیند کی گولی دے کر آرام دہ بستر پر لٹا دیا گیا۔ پر بستر پر اسے چین نہ تھا۔ ماں نے دروازہ بند کیا تو وہ اٹھ بیٹھی۔ سرہانے گلاس میں دو گھونٹ پانی تھا اور ساتھ کی دراز میں نیند کی گولیوں کی شیشی۔ رات کا پچھلا پہر تھا اور دل نگار ٹھنڈے فرش پر دراز تھی۔ بستر کی گرمی اب اسے راس نہ تھی ۔ اگلی صبح گلاس اور شیشی خالی ملے۔ دل نگار کی لاش ٹھنڈے فرش پر پڑی تھی اور اب بھی وہ ادھ کھلی مٹھیوں کے ساتھ کھلی آنکھوں سے چھت کو تکے جا رہی تھی۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ