وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی حیدرآباد کے درمیان موٹر وے پراجیکٹ ایم نائن کا افتتاح کرتے ہوئے اپنی حکومت کی کامیابیوں کا ذکر کرنے کے علاوہ بالواسطہ اپوزیشن پارٹیوں پر نکتہ چینی کی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کا نام لئے بغیر واضح کیا کہ جب وہ 2013ء میں برسر اقتدار آئے تھے تو معیشت ابتری کا شکار تھی لیکن اب ملک بھر میں انفرا سٹرکچر کھڑا کیا جا رہا ہے ۔ نوجوانوں کو روزگار میسر ہے اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ اس لئے ہم دھرنوں پر وقت ضائع نہیں کرسکتے۔ یہ ایک طویل اور علیحدہ بحث ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کا آغازکس حد تک ترقی کا سفر ثابت ہوتا ہے۔ یہ سارے منصوبے آئی ایم ایف یا چین کے بینکوں سے قرض لے کر شروع کئے جا رہے ہیں۔ حکومت پر یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ ان قرضوں کی ادائی کا کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے اور قوم پر سوچے سمجھے بغیر مالی بوجھ میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف کے ناقدین عام طور سے کہتے ہیں کہ وزیر اعظم یا تو غیر ملکی دورے کرتے ہیں یا منصوبوں کا افتتاح کرکے اپنی حکومت کی کامیابیوں کے قصے بیان کرتے ہیں اور مخالفین پر بالواسطہ تنقید کے نشتر چلاتے ہیں۔ حالانکہ ملک کو گونا گوں مسائل اور پریشانیوں کا سامنا ہے۔ ان موضوعات پر نہ تو وزیر اعظم منصوبوں کا افتتاح کرتے ہوئے تقریروں میں ذکر کرتے ہیں اور نہ ہی کبھی اخبار نویسوں سے بات کرتے ہیں یا انٹرویو دیتے ہیں۔ اس طرح عوام سے ان کا رابطہ یا ان کے مشیروں اور وزیروں کے ذریعے ہوتا ہے یا وہ پاناما کیس کے حوالے سے قوم سے مخاطب ہوتے ہیں۔ یہ تقریریں بھی ان کے ذاتی مسائل، خاندانی دولت اور بدعنوانی کے الزامات کو مسترد کرنے پر زورِ بیان صرف کرنے کے لئے مختص ہوتی ہیں۔ اس وقت یہ معاملہ چونکہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ، اس لئے ان کی آدھی کابینہ سرکاری فرائض سرانجام دینے کی بجائے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کا دفاع کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ یہ طریقہ کار اور انداز حکومت کسی طرح بھی پاکستان جیسے مسائل میں گھرے ملک کے لئے مناسب نہیں ہے۔ وزیراعظم پارلیمانی نظام کے تحت ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں لیکن وہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کی زحمت نہیں کرتے۔ اسی لئے ان کے وزراء بھی عام طور سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں سے غائب رہتے ہیں اوراپوزیشن کے ارکان اہم امور پر سوال کرتے رہ جاتے ہیں۔ حکومت کے سربراہ کے طور پر نواز شریف کو اس صورت حال پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ بھی اس طرف توجہ دلانے کی کوشش کرتے ہیں وہ لازمی طور سے ان کے مخالف یا دشمن نہیں ہیں بلکہ وہ ملک کے پارلیمانی جمہوری نظام کے تقاضوں کی طرف توجہ دلا کر دراصل وزیر اعظم کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ملک مسائل کا شکار ہے۔ اگر نواز شریف باقاعدگی سے اسمبلی میں آئیں تو پارلیمانی جمہوریت پر لوگوں کا اعتماد راسخ ہو گا اور اہم امور پر وزیر اعظم کے خیالات سن کر بھی عوام کی تشفی ہو گی۔ حکومت پاک چین راہداری منصوبہ کو ’گیم چینجر‘ قرار دے کر مخالفین کو خاموش کرواتی ہے۔ حالانکہ اس بارے میں تو کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ یہ منصوبہ اور اس کے ذریعے ہونے والی سرمایہ کاری ملک کی معیشت کو بہتری کی طرف لے جائے گی۔ تاہم اس منصوبہ کے حوالے سے صوبوں کے اعتراضات، سرمایہ کی فراہمی کی شرائط اور منصوبوں کی تفصیلات کے بارے میں وزیر اعظم کبھی زبان نہیں کھولتے۔ حالانکہ ان امور پر لوگوں کو اعتماد میں لینا اور اسی مرحلہ پر اعتراضات کو دور کرنا ضروری ہے۔ بد قسمتی سے حکومت نے قومی اسمبلی کو بھی اس مقصد کے لئے استعمال کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اسی طرح لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں اس منصوبہ کو بھارت اور دیگر ملکوں کی طرف سے کن خطرات کا سامنا ہے اور حکومت ان سے نمٹنے کے لئے کیا اقدامات کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کی سہانی تقاریر یہ پریشانیاں دور کرنے کے لئے کافی نہیں ہو سکتیں۔ ملک کو اس وقت انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی اور امریکا میں نئی حکومت آنے کے بعد ایک نئی صورت حال کا سامنا ہے۔ لیکن وزیر اعظم ان اہم امور پر بھی بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سات مسلمان ملکوں کے شہریوں کا امریکا میں عارضی داخلہ بند کیا ہے۔ ملک کے شہری اس اقدام پر تشویش کا شکار ہیں۔ حکومت ایک ترجمان کے ذریعے صرف یہ کہہ کر اپنے فرض سے عہدہ برآ ہو رہی ہے کہ امیگریشن کنٹرول کسی بھی ملک کا حق و اختیار ہے۔ لیکن وزیر اعظم کو خبر ہونی چاہئے کی یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے۔ یہ مسلمان دنیا کے ساتھ امریکا کے تعلقات کے حوالے سے افسوسناک فیصلہ ہے ۔ اس کا اثر کسی نہ کسی طرح پاکستان پر بھی مرتب ہو سکتا ہے۔ قوم توقع کرتی ہے کہ وزیر اعظم ان اندیشوں کا خود جواب فراہم کریں تاکہ لوگوں کو علم ہو کہ حکومت پیش آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا تیاریاں کررہی ہے۔ سرحدوں پر صورت حال اور بھارت کا مسلسل جارحانہ رویہ ایک علیحدہ پریشانی کا سبب ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی آئے روز پاکستان کا پانی بند کرنے، سندھ طاس منصوبہ کو نظر انداز کرنے اور پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کے اعلان کرتے رہتے ہیں۔ ان تند و تیز بیانات کے جواب میں پاکستانی وزیر اعظم کی خاموشی لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرتی ہے ۔ ملک میں افواہیں گردش کرتی ہیں اور مبصر اور تجزیہ نگار مختلف النوع اندازے قائم کر کے لوگوں کو مزید الجھن کا شکار کرتے ہیں۔ امریکا کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور ٹرمپ حکومت کی نئی دہلی کے ساتھ شیفتگی پاکستان کے لئے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتی ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم کا فرض ہے کہ وہ عوام کی پریشانیوں کو سمجھیں اور براہ راست ان مسائل پر بات کریں جن پر ملک کا میڈیا چیختا چلاتا رہتا ہے اور جو ہر گلی کوچے میں بحث کا موضوع بنتے ہیں۔ وزیر اعظم سے دست بستہ درخواست ہی کی جا سکتی ہے کہ حکومت کی کامیابیاں تو نظر آہی جائیں گی لیکن گاہے ان مسائل پر بھی بات ہو جائے جن پر عوام دن رات پریشان رہتے ہیں۔
(بشکریہ:کاروان)
فیس بک کمینٹ