جب نیندیں اچھی لگتی تھیں: رضی الدین رضی کی محبت بھری نظم
وہ بھی دن تھے جب آنکھوں میں
ہر منظر اجلا اجلا تھا
اک چہرہ تھا جس کے دم سے
ہر چہرہ نکھرا نکھرا تھا
اک وعدہ تھا اور وعدے کو
ہم نے ہر طور نبھانا تھا
اک رستہ تھا اور رستے پر
ہم ہاتھ پکڑ کر چلتے تھے
پھر ان دیکھی سی منزل بھی
ہمیں دیکھی بھالی لگتی تھی
وہ نم آنکھوں سے تکتی تو
بڑی بھولی بھالی لگتی تھی
۔۔۔
اک دروازہ تھا جو میری
آہٹ پر خود کھل جاتا تھا
اک موسم حسن کی بارش کا
جو من کی پیاس بجھاتا تھا
کچھ راتیں تھیں صبحوں جیسی
جو باتیں کرتے کٹتی تھیں
کچھ باتیں تھیں اور باتوں سے
پھولوں کی خوشبو آتی تھی
۔۔۔
کچھ آنسو میری آنکھوں کے
جو تیری آنکھ سے برسے تھے
تُو شہر میں تھا تو ہم بھی کبھی
خود کو نہ اکیلا سمجھے تھے
ہمیں نیندیں اچھی لگتی تھیں
ہمیں خواب سہانے لگتے تھے
کیا دن تھے جب ہم لوگوں کو
پاگل دیوانے لگتے تھے
( کتاب : دن بدلیں گے جاناں ۔۔ مطبوعہ مئی 1995)