موت کا ایک دن مقرر ہے،اس سے کسی کو مفر نہیں،میاں نواز شریف کا ایک اور سہارا چھن گیا،ایک اور غم ان کی زندگی میں شامل ہوگیا۔ کاش کو ئی اس سے پوچھے زندگی کا فلسفہ جس کے ٹوٹے ہوں سہارے سلسلہ در سلسلہ 12 اکتوبر1999ء کوشب خون نہیں مارا گیا تھا ،سرِشام ایک تدبیر کے الٹ جانے کا خمیازہ تھا ،کسی کے غلط مشورے کی سزا، آمر پرویز مشرف نے ایک جمہوری حکومت کو اپنے بھاری بوٹوں تلے روند ڈالا۔ اور وہ ڈار سے بچھڑی ہوئی کونج کی طرح کُرلاتی پھر رہی تھی ۔تب جب نواز شریف کے اقتدار کا سورج آب وتاب سے چمک رہا تھا ،تو کبھی کبھی اس کی زبانی جاری ہونے والا بیان یوں لگتا تھا جیسے بہار کی ہوا کا کوئی جھونکاچپکے سے آکر گزر گیا ہو ،نواز شریف کے اولین دور میں انہوں نے بارہا یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ اپنے میاں کی تقریر خود تحریر کرتی ہیں،تب ان کی باتوں پر کبھی یقین آجاتا اور کبھی یوں لگتا جیسے پردے کے پیچھے کسی کی ہنسی کی آواز اونچی ہو گئی ہو،نواز شریف حکومت کرتے تھے اور وہ شعرو ادب کا مطالعہ کرتی تھیں ،میں ان کے ادبی ذوق سے تو آشنا نہیں تھا،نا ہی یہ جانتا تھا کہ وہ کس شاعر و ادیب کی دلدادہ تھیں،تاہم ان کی حساسیت آہستہ آہستہ کھلتی جارہی تھی،پھر ان کے ادبی ذوق پر سیاست کا غلبہ آگیا،جبکہ پہلے پہل لگتا تھا وہ سیاسی باتیں پردے کے پیچھے سے کرتی تھیں ،پھر لاوہ ابل پڑا ،وہ حالات کے سنگِ گراں سے ٹکرانے کے لئے گھر سے باہر نکل آئیں
،وہ لوہے کی ایسی دیوار بن گئیں جو طوفان کا رخ موڑ نہ بھی سکے تو اسے روک لینے کی سکت رکھتی تھی،حالانکہ ظاہری شکل و صورت سے وہ دیوارِ خستگی سی لگتی تھیں ،جیسے ہاتھ لگنے سے گر جائے گی،مرجھایا ہوا،سُتا ہوا سا چہرہ،آنکھوں میں بلا کا کرب ،ماتھے پر شکنوں کا جال ،بے بسی کی تصویر لگتی تھیں ،یہاں تک کہ لہجے میں بھی تھکاوٹ کا احساس گھلا ہوا محسوس ہوتا تھا ،شروع دنوں میں اپنی گفتگو کے بیچ چھپے تضاد کا گیان نہیں رکھتی تھیں ،بولتی پہلے تھیں ،سوچتی بعد میں،مگر کچھ ہی عرصہ گزرا کہ ہر بات سوچ کر،تول کر پورے وزن کے ساتھ کرنے لگیں ،ہر فقرے کو پہلے شعری حسن میں ڈھالتیں ،پھر لبوں سے ادا کرتیں ،ان کی آنکھوں میں ہر لحظہ اپنے شوہر کی وفا کے چراغ جلتے ہوئے دکھائی دیتے،وہ اپنے سر تاج کی جنگ لڑرہی تھیں ،ان کارکنوں کی نہیں جو کسی مفاد کی خاطر نہیں ،جمہوریت کی آبیاری کی خاطر اپنے لہو کے چراغ اپنی ہتھیلیوں پر سجائے نواز شریف کے نعرے لگاتے پھرتے تھے ،یہ وہ افتادگان خاک تھے جنہیں نواز شریف نے قابل توجہ ہی نہ گردانا ،گلی کے ککھوں جتنا بھار بھی انہیں نہ دیا ،تاہم تھوڑے دنوں میں بیگم کلثوم نواز نے باور کر لیا کہ یہی گلیوں کے ککھ مسلم لیگ کے سیاسی تنور کا رزق بنیں گے تو بھانبڑ بھڑکے گا ،اوپر والے تو راکھ کا سرد ڈھیر ٹھہرے ،ایک چنگاری شیخ رشید کی صورت تھی ،وہ بھی بھسم ہوگئی،موقع پرستی کی موت مر گئی ،بیگم کلثوم بھی دوستوں اور دشمنوں کا ادراک کر چکی تھیں، وہ جان گئی تھیں ،کہ ضیاء کا بیٹا باپ کے احسانات کی گٹھڑی نواز شریف کے راستے میں پھینک کر بھاری بوٹوں والوں کے ساتھ جا ملا ہے اور اپنی شیروانی کی سلوٹوں میں اونگھتے اپنے مستقبل کے خواب میں رہتا ہے ،وہ یہ شعور بھی رکھتی تھیں کہ راجہ گدھ شکار کے لئے کان کھڑے کئے رکھتا ہے
،اسے یہ بھی علم تھا کہ فخر امام حالات کے دھارے کے بدلنے کا منتظر ہیں اور بیگم عابدہ سمجھوتہ پرواز کے لئے پر تولے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بیگم کلثوم نواز گلی گلی ،نگر نگر میاں برادران کے بے مروت دوستوں کے بچھائے ہوئے کانٹے چنتی رہیں ،نا امیدی کے لہجے میں امید کی بات کرتی تھیں ،وہ مسلم لیگ کے بکھرے ہوئے شیرازے کو اپنے دامن میں سمیٹے ،دن رات دیوانہ وار آمریت کے خلاف تنِ تنہا مسلم لیگ کے کھوئے ہوئے اقتدار کے حصول کی موہوم جنگ لڑ رہی تھیں ،وہ ہر طرف سے مایوس ہونے کے باوجود بھی ایک طرف سے پر اُمید تھیں ،وہ سجھتی تھیں کہ ایک نواز شریف ہی ہے جو اس قوم کاواحد سہارا ہے ،اسی کا دستِ شفقت ہی قوم کو آمریت کے اندھیروں سے نکال سکتا ہے ،وہی ایک قوم کے دکھوں کا مداوا بن سکتا ہے ،وہ اس لمحے کی منتظر تھیں کہ میاں اظہر جو دل کا برا نہیں وہ اس کی چادر کا وارث بننے کی حامی بھرے گا ،وہ وضع دار سا سادہ ،کھرا اور سچا آدمی جو خود بھی منتظر تھا ،اس امر کا کہ میاں نواز شریف اپنی سیاسی غلطیوں کا اعتراف کرے جن کی وجہ سے اس کے اقتدار پر قبضے کی راہ کھلی تھی۔ بیگم کلثوم اپنے میاں کے ہر ہر عیب کو اپنی چادر میں چھپاتی بھی تھیں اور اقرار بھی کرتی تھیں کہ قطعاََ اس پر مصر نہیں کہ نواز شریف سے سیاسی غلطیاں سرزد نہیں ہوئیں ،تاہم وہ میاں صاحب کی بے اعتدالیوں کو فراموش کرنے کے ترلے لیتی تھیں ،زرداری اور نواز شریف کی بیوی میں بس یہی فرق تھا کہ محترمہ بے نظیر زرداری کے نا ٹھیک کو بھی ،ٹھیک کہتی تھیں، وہ اس کے ہر فعل ،قبیح سے قبیح تر فعل کو وزارتِ عظمیٰ کی چھتری مہیا کرتی رہیں ،مگر بیگم کلثوم ،نواز شریف کی غلطیوں پر یکسر پردہ نہیں ڈالتی تھیں،بلکہ ان پر کبھی کبھی ندامت کا اظہار بھی کرتی تھیں،ان دنوں یاران نکتہ داں کہا کرتے تھے اور ٹھیک کہا کرتے تھے کہ’’ بیگم کلثوم نے نواز شریف فیکٹر کو مسلم لیگ میں زندہ اور مضبوط کردیا ہے ،بلکہ وہ نواز شریف کو تاریخ کے اندھے کنویں سے نکال کر روشن باب کا حصہ بنا رہی ہیں ‘‘دھیمے لہجے کی فولادی عورت گھر کی چار دیواری سے کیا نکلی کہ دنیا بھر کی آنکھوں کا تارہ بن گئی ،پوری دنیا کا میڈیا اس پر مہربان تھا ۔اب بھی وہ بسترِ مرگ پر نہ پڑی ہوتیں تو وہ نواز شریف کی جنگ بڑی دلیری اور جاں فروشی سے لڑتیں ،مگر وہ تو نواز شریف کے غم کو دوبالا کر کے آسودہء خاک ہوئیں ،رب ان کی لحد پر رحمتیں نچھاور فرمائے ،اپنی قوم سے انہیں بہت پیار تھا وہ سب کو اپنے پیار کا پیاسا چھوڑے داعیء اجل ہوئیں۔ اِنّا لِلّہِ وَاِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون