جاپانی دانشور،فلسفی اور تاریخ دان اکیدا نے برطانوی ماہرِتاریخ سے ایک مکالمہ میں کہا ”امریکہ ایک وسیع و عریض ملک ہے اور اسی وسعت کی وجہ سے وہاں سرحدی روح پیدا ہوئی۔اس وسیع خطے پر اپنی تاریخ کے آغاز میں ایک بنجر خطہءزمین کے فطری تناؤکو نظر انداز کرتے کرتے امریکیوں نے دوسرے لوگوں کو نظر انداز کرنا شروع کردیا،جب امریکہ کو دوسری اقوام سے واسطہ پڑتا ہے تو یہ سرحدی روح امریکہ کی بے پایاں قوت کے ثبوت کے طور پر استعمال ہوتی ہے ۔ویت نام کی جنگ سے یہ واضح ہوتا کہ شاید یہ رجحان انتہا تک پہنچ چکا ہے“
برطانوی تاریخ دان ٹوائن بی نے اس موقع پر جوابی تبصرہ کرتے ہوئے کہا ” دوسرے علاقوں سے واسطہ پڑنے کی صورت میں امریکہ نے ہمیشہ انسانوں کو نظر انداز کیا ہے ،اس کی بنیاد امریکہ کے مخصوص جغرافیائی اور تاریخی حالات میں ہے،بر اعظم شمالی امریکہ کو انہوں نے ایسا ویران خطہ تصور کیا جہاں پر وحشی درندوں ،جنگلات اور صحراؤں کے سوا کچھ نہ ہو اور وہاں کے مقامی باشندوں کو جغرافیائی ماحول کا حصہ سمجھنے کے سوا کوئی اہمیت نہ دی،اس سرحدی روح کو امریکہ نے ویت نام کے معاملے میں پالیسی کے طور پر اختیار کیا،یہ دریافت کہ ویت نامی باشندے نہیں ہیں بلکہ امریکہ کے شہریوں کی طرح انسان ہیں ،امریکیوں کے لئے پریشان کن تھی،ویت نام میں امریکی شکست یقیناََ اخلاقی تھی اور امید ہے کہ امریکہ اس سبق کو یاد رکھے گا“مگر امریکہ نے یہ سبق یاد نہیں رکھا ،اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکیوں نے ہمیشہ نئے افق تلاش کر نے کی کوشش کی ہے ،
منرو نظریے کی بنیاد بھی اسی پر تھی کہ ” بغیر کسی دوسری طرف توجہ دیئے اپنے ملک کو ترقی دی جائے“مگر اشترکیت کے بھوت نے امریکہ کو سب کچھ بھلا دیا اور یہ ایک بے پایاں خودپرستی کا شکار ہوکر رہ گیا اس نے داخلی طور پر اشتراکیت کو ایک ایسا دیو تصور کر لیا جو امریکہ کے متمول طبقات کو ہڑپ کر خستہ حال کرکے رکھ دیگا،جاپان سے ایک اور جرمنی سے دو عالمی جنگیں لڑنے کے باوجود ان سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا تھا ،دو عالمگیر جنگوں میں کامیابی نے اسے ایک غرور میں مبتلا کر دیا کہ وہ ناقابل تسخیر ہے ،اسی زعم میں اس نے اپنی ”مثالی ریاست “ کے خواب کی تعبیر کے حصول کے لئے مختلف ملکوں کے ساتھ جنگی سرگرمیوں کا آغاز کیا ، تاہم 1917ءکا روس اس کے لئے خطرے کی تلوار بن گیا اور اس کے ساتھ امریکہ نے ،معاندانہ اور جارحانہ سلوک کرنا شروع کردیا ۔گو دوسری جنگ عظیم امریکہ اور روس نے ملکر لڑی،مگر اشترکیت امریکہ کے لئے پھر بھی ایک بھیانک خواب تھا جس کے کی تعبیر سے اسے ڈر لگتا تھا ،لیکن روس کے معاشی نظام نے اس
کی ملٹری قوت کا ساتھ نہ دیا،جس پر ہینری کیسنجر نے صاف الفاظ میں کہا کہ’’imperial expansion in all directions could not be sustained on the basis of Unworkable Economic Model©
ایک طویل سرد جنگ کے بعد1991ءمیں روس اپنے اندر ٹکڑے ہوگیا،وہ افغانستان اور طالبان جنہوں نے امریکہ کی جنگ لڑی تھی ان پر ہی ۱۰۰۲ءمیں امریکہ نے ایک ایسی جنگ مسلط جو آج بھی جاری ہے ،اسی دوران عراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور آج ایران پر اس کے خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
وہ امریکہ جو پاکستان کے لئے ہمیشہ ایک سراب ثابت ہوا ہے ،جس میں لیاقت علی خان نے پہلا قدم رکھا تھا اور آج تک پاکستان اس سراب ہی میں بھٹک رہا ہے ،اب وزیر اعظم عمران خان کے منہ میں صدر ٹرمپ نے ایک نئے رنگ کی ،نئے ذائقے کی چوسنی دینے کی کوشش کی ہے،عالمی مبصر اس پر تاحال چپ ہیں ،پاک میڈیا پر وزیر اعظم کے امریکہ پہنچنےسے پہلے قدغن لگادی گئی ،وہ جن کے ہاتھ میں طبلے سرنگیاں ہیں وہ لہک لہک کر امریکہ پاکستان تعلق کے نئے دور کےراگ الاپ رہے ہیں ۔
یقیناََ وزیر اعظم عمران امریکہ سے اپنے لئے اور پاکستان کے لئے بہت کچھ لائینگے،ان میں ان ڈیپلومیٹس اور سفارتکاروں کا کئی کردار نہیں ،عمران خان کی اپنی کرشماتی شخصیت کا کمال ہوگا ،لیکن یہ کرزمہ کتنے وقت پر محیط ہوگا ،دن،مہینے،سال تحریک انصاف کے عرصہءحکومت پر جس کے بارے ابھی سے چہ مگوئیوں کا بازار گرم ہے۔وزیر اعظم
کے ساتھ گئے آرمی چیف سیکیورٹی کے حوالے سے پائے جانے والے تحفظات کو کس حدتک باور کراپائینگے ،پیٹگان کے ساتھ کیا طے پاتا ہے ،افغان امن اور افغانستان سے امریکی فوجیوں کے نکلنے کا کیا فارمولا طے پاتا ہے ۔وزیر اعظم معیشت کی ڈوبتی کشتی کے لئے کیا لے پاتے ہیں ،امریکہ میں رہنے والے پاکستانی تجارتی خساروں کے لئے کس کردارکی یقین دہانی کرواتے ہیں ،ڈالر کنٹرول کرنے کے سلسلے میں کیا مدد کر سکتے ہیں ؟ یہ سارے سوالات وزیر اعظم زاد راہ کے طور پر اپنے ساتھ لے گئے ہیں ،پانچ روزہ دورے میں کتنی کامرانیاں ان کی زنبیل میں بھری جاتی ہیں یا کشکول میں ڈالی جاتی ہیں ۔۔۔؟؟؟
فیس بک کمینٹ