طرزِ تدریس میں مزاح کی کھکھلاہٹ سمو دینے والی ہماری مس مسرت رخسانہ ۔۔۔۔ میٹرک کے بعد گرلز ڈگری کالج بورے والے انٹرویو دینے پہنچے۔ گھنگریالے بالوں والی، ماہی منڈا سی ۔ آنکھوں میں مشاہدے ۔ تجزیے اور گھوری کے چاک و چوبند دستے کیساتھ ہائی الرٹ ۔۔۔ مخروطی انگلیوں میں پنسل دبائے کوائف پر ٹک ٹک لگائے ہمکلام ہوئیں۔ فزیکل ایجوکیشن ۔ اچھا تو کوئی کھیل بھی کھیلا ہے۔ کبھی ۔۔۔۔ میں نے جواب دیا۔ جی چور سپاہی، شٹاپو، قینچے، گلی دنڈ، وغیرہ مس نے جملہ داغا ۔” موت کے کنویں میں موٹر سائیکل بھی چلا لینا تھا“۔ کیسے کیسے نمونے اٹھ کے آجاتے ہیں ۔ فزیکل ایجوکیشن پڑھنے۔ میں نے حقیقیت بھانپتے ہوئے سٹپٹاکر جواب دیا ۔۔۔ مس جی اسکول میں ۔ میں نے لانگ جمپ ہاکی اور بیڈمنٹس کھیلا ، اور گرل گائیڈ بھی ہوں۔ ”ٹھیک ہے جاؤ بچے۔ آپکا داخلہ ہو گیا ہے۔ گھر واپسی پہ میں نے ”نمونہ“ کی روداد سنائی تو میرے چاچو نے کہا ”تمہاری استاد نے تمہیں جلد پہچان کر اپنی شاگردی میں لے لیا ہے ۔لہٰذا تمہارا بیڑا اب پار ہی پارہے“۔
ان دنوں تعلیم کی رغبت عام نہ تھی۔ لڑکیوں کی تعلیم کو فوقیت حاصل نہ تھی۔ اب صورتحال مختلف ہے لڑکیاں اب لڑکوں پہ علمی سبقت حاصل کر چکی ہیں۔ ۔۔۔ خیر یہ فوقیت تو اماں حوا کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔ رسائل پڑھنا ، فینسی کپڑے پہننا ، ہئیر کٹ بنوانا ، میک اپ کرنا ، ریڈیو ، ٹی وی کے پروگرام سننا ہو یا کھل کر ہنسنا بولنا۔ جیسی خصوصیات کا مودِ الزام کالج کو ہی ٹھرایا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ ان دنوں لڑکیوں کو گھر میں نئے نئے P.T.C.Lکی گھنٹی اٹھانے کی اجازت تک نہ تھی۔ کہ کہیں رانگ نمبر کے نتیجے میں کوئی چن ہی نہ چڑ جاوے۔۔۔ فزیکل ایجوکیشن کی ایکٹویٹی کُجا بسا اوقات مائیں کھلی فضا میں سانس لینے کی خواہشمند بیٹی کو چیخ و پکار سے ہی محلے بھر کو مطلع کر دیتی تھی کہ میری بیٹی چھت پہ ہے۔ نتیجتاً دن میں ہی کئی گرہن ذرہ چاند چھت پہ نمودار ہو جایا کرتے تھے۔
تعلیمی ادارے ٹکسال کی طرح ہوتے ہیں۔ جہاں سکے اپنی الگ قیمت ، شناخت اور لاگت کے بل طبقاتی تضاد کی کسوٹی پہ پرکھے جاتے ہیں۔ ماضی میں بورے والہ شہر میں ننھے منے 4-2اسکول لیکن بڑا اسکول اور بڑا کالج ایک ہی تھا۔ عظیم آباد کی بستی ، لکڑمنڈی، بی ٹی ایم، چونگی 505اورمشرق ، مغرب ،جنوب، شمال سے جڑے دیہات ۔۔۔ قصبات اور بستیوں سے قافلہ در قافلہ طالبات ایک ہی ادارے میں علم حاصل کر تیں۔ یوں چھوٹے سے گنجان آباد شہر میں ایک بلند بالا سی ایک یگانگت قائم تھی۔ صبح صبح گلی محلے لڑکوں پر رواں دواں سفید یونیفارم اور سرخ سویٹر میں ملبوس لڑکیاں یوں دکھائی دیتیں جیسے کسی پولٹری فارم سے بے قابو مرغیاں کڑکڑ کرتیں۔ اپنے پر پھڑ پھڑاتی جشن آزادی منا رہی ہوں۔ معاشرتی سوچ جب مبہم ہو تو اظہار کو تالے تو نہیں پڑتے لیکن ایک اضطراب سا شخصیت میں در آتا ہے۔ ابہام کا اظہار جب مس مسرت صاحبہ کے روبرو ہوا۔ تو اپنا ماضی الضمیر بیان کرتے سمے مہ کھولے ۔ ۔۔۔۔بے چین آنکھیں مضطرب حرکات و سکنات سے سرکے گرد گھما کر رکھے ڈوپٹے کے پلو کو انگلیوں پہ مروڑ مروڑ کہ بل دیتے سمے طالبات مافوق الفطرات عناصر دکھائی دیتیں۔ اور مس مسرت شعور تالا شعور ذہن و دل سے گتھم گھتا گرہوں کو محبت بھرے پر مزاح جملوں سے وا کرتی ہی چلی جاتیں۔ بسا اوقات ابہام کے اس پہاڑ کی بہ مثل فرہادکی تیشہ زنی کرنی پڑتیں۔ بلا مبالغہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ شہر بورے والے کی طالبات کی سالہا سال کی تربیت سے انہیں اعتماد خود شناسی اور مسکرانے کے فن سے متعارف کروایا۔ فزیکل ایجوکیشن کی طالبات کو ویسے بھی فکر نہ فاقہ ایش کر کاکا جیسی عیاشی میسر تھی۔ مس مسرت ایک کوچ کی حیثیت سے والی بال، بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس کی ٹیموں کی تیاری میں مصروف کار رہتی تھیں۔۔۔ لیکن مرحلہ دار امتحانات سے فیل وہ ہفتہ بھر کی ”درالفساد“ جیسی سر گرمی برپا کر کے تمام ترنصاب ازبر کروا کے پلو جھاڑتی۔۔۔ سیٹی بجاتی ہمارے دلوں کی دھڑکن کو تیز تر کرتیں گراؤنڈ میں ”‘دعوتِ کھیل‘ دے رہی ہوتیں تھیں۔ ہمیشہ مسکرانے والے دلوں میں غم کی آنچ کی تپش محسوس ہوتی رہتی ہے۔ہشاش بشاش مس مسرت نے بھی زندگی کے کھیل میں بہت کچھ ہارا ہے۔۔
لیکن ان کا نصب العین ہے کہ جیت اسکی جو حوصلہ نہیں ہارتا ۔ حوصلہ مند مس نے زندگی کو ہمیشہ رکاوٹوں والی دوڑ سمجھ کر عبور کیا ہے۔ زندگی کو بھی سپرٹ مین کی سی سپرٹ سے نبھایا اورسلجھایا ہے۔ ہمیشہ چاک و چوبند متحرک اور تیز گام اور مثبت طرزِ عمل۔۔۔۔
نظام کوئی بھی ہو گھر کا گھاٹ کا یاکسی ادارے کا ۔۔ جب تک تمام اراکین اپنی اپنی پوزینشز پہ چابکدستی سے کھڑے نہ ہوں کامیابی کا حصول ناممکن ہے۔ ہمارے کالج کے سنہری دور میں پرنسپل صاحبہ شمیم چوہدری اپنی متانت راستقامت اور تحمل سے مالا مال خوبیوں سے ایک کپتان کی طرح تھیں تو مس مسرت ایک آل راؤنڈ کھلاڑی۔۔۔۔ مس نجمہ تاج صاحب کی طالبات کی تہذیبی رویوں میں تنظیم سازی کو خراج تحسین کے لیے نہ تو میری نوک قلم میں طاقت پرواز ہے نہ تاب ۔۔۔۔۔ اندازہ لگانا شکل تھا کہ ان کے حسن پہ رعب کا غلبہ ہے یا رعب حسن غالب ہی غالب ہے۔ ان کے تیور میں خاموش غصے اور مبہوت کر دینے والے حسن کی حشر سامانی نہ میں نے کبھی کہیں اور دیکھی نہ سنی۔۔۔ گھر بیٹھے ہی کے تصور سے ہی مجھے جھر جھری آجانے کے باوجود میں نے دوستوں میں ان کا نام ”پھولن دیوی“ رکھا ہوا تھا۔ ۔۔۔۔۔ ہمارے کالج میں نصاب کتابوں تک محدود نہ تھا۔ کھیل مباحثے ، مشاعرے، ثقافتی پروگرام ،قومی اور مذہبی تقریبات کا انعقاد تسلسل سے ہوتا رہتا ۔
کالج کی پارٹی تو شہر بھر میں ایک تہوار کی سی ہلچل مچادیتی ۔ پارٹی کی خبر کی تصدیق ”ریشم گلی “سے وائرل ہو کر کالج گیٹ پر ”ہجوم بے کراں “پہ منشتر ہوتی۔ اندازہ نہ ہوتا تھا ۔ کسی کا بھائی کسی کو لینے آیا ہے یا کسی کوبہ حفاظت چھوڑنے۔
میں نے 4سال مس مسرت کی کوچنگ میں والی بال کھیلا، آج بھی لاہور کے گراؤنڈ میں یا دورانِ سفر لڑکوں کو والی بال کھیلتے دیکھوں تو جی چاہتا ہے کہ مایہ ناز کھلاڑی شاہین رضوی کے ساتھ ہو لوں ان سے والی بال چھین کر سروس پوائنٹ پہ قدم آگے ۔پیچھے پھلانک بناتے ٹھپہ لگا کر ۔۔۔۔ بند مٹھی سے زور دار ضرب لگا کر ماضی کے منظر نامے میں چھناکے مار دوں۔۔۔۔ پھر اپنی استاد سے سیکھی نر ماہٹ بھری ”دھکیل“ سے samashکر تی چلی جاؤں۔۔۔ اے کاش۔۔۔مس مسرت کی ایک اضافی صلاحیت ان کا Singingکا فن ہے۔ اس دور میں گانوں کو بس چنی کیسری تے گوٹے دیاں تاریاں تک محدود رکھنا ہی مجبوری تھا۔ کلچرل پروگرام میں شراکت داری کی یاداشت میں کالج کے سٹیج پر اپنی شاگردوں کو ہم جو لیوں کیطرح کوریوگرافی سے تھاسی ایسے گانے یاد آجاتے ہی۔ آپ بھی سنیں۔
جٹی چلی مر بعیاں دی سیر نوں۔۔۔۔
نہ گھور کے اڑیا تک دے۔۔۔۔
میرے بلال نے سجرا سق دے ۔۔۔۔۔
ابھی پچھلے دنوں اپنی سادہ دلی، اور سیع القلبی کے باوجود ایک شقی القلب اٹیک نے انہیں نڈھال کر دیا ۔۔۔ مگر مس مسرت صاحبہ نے مایوسی کو اپنی فطری بلند العزمی کیساتھ بہادری کیساتھ شکست دی۔ بالکل ایسے جیسے ایک کشمیری بچہ مزاحمتی گانا۔ گنگناتا ہے۔ انڈیا جا جا کشمیر سے نکل جا۔اور پھر دوائی ۔ آرام ۔ اور پرہیز کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر وہ ایک شیف کی طرح نمودار ہوئیںاور ۔سر پر کیپ پہنے پرہیزی ذائقے کے تناسب سے نئی ڈشز تیار کرتی ہی رہتی ہیں۔آپ بھی ان کی میزبانیوں میں خوش گپیوں کے ہمراہ پلا ؤکباب سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔