خوابوں کی ضمانت کون دیتا ہے ،کس کو یہ اختیار حاصل ہے ؟ ایک لفظ عذرِلنگ ہے جو بِنا ادا کئے کرشمہ سازیاں دکھاتا چلاجارہا ہے ۔کرپشن کہانی بہت طویل ہے ،مگر خلاصہ یہ کہ کسی کو فرصت ہی نہیں اس جانب توجہ دے ،یوں کہنے کو کوئی دفتر ایسا نہیں جس کے ماتھے پر بدعنوانی اور رشوت ستانی کے خلاف جہادی نعروں کے بینرز آویزاں نہ ہوں ،مگر کپڑے کے اس پھریرے کے سائے تلے یہ سب کچھ مزید روانی اور بے باکی کے ساتھ ہورہا ہے ۔پالا پڑنے پر پتہ چلتا ہے کہ ہم بدعنوانی کے جل میں کتنے ڈوبے ہوئے ہیں ۔بازاری اعدادو شمار سب ہیچ ہیں اور اب سینیٹ کے میدان میں جو بازار سجنے والا ہے اس سے کیا ہوگا ،یہ سب جانتے اور اچھی طرح پہچانتے ہیں ۔
وزیر اعظم عمران خان نے اس حوالے سے ”نیلامی“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں اور بھی وسعت اور کشادگی ہے ۔وزیراعظم کی آواز صدا بہ صحرا نہ ہوگی تو کس کی ہوگی کہ تین برس ہونے کو آرہے ہیں وہ اپنے ہر بیان اور پالیسی سے رجوع فرمائے بغیر عافیت نہیں پاتے ۔ان کے گرد جو حلقہءوزراءہے وہ ان کی ہر آرزو پر بھاری ہے ۔ویسے یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ملک کے وزیراعظم کی کسی بات کو قرار نہیں۔گئے وقتوں میں ایسے حاکم کے لیے ربڑ سٹیمپ کا لفظ استعمال ہوتا تھا جو اب متروک ٹھہرا ہے تو نیا لفظ منصہ شہود پر نہیں آیا کہ کٹھ پتلی تو ایک پرانا اور پیش پا افتادہ لفظ ہی ہے ۔لفظوں کا رونا کیا روئیں کہ ان کی تو نفسیاتی تعبیریں ہی بدل گئی ہیں ۔
یوں تو عزت و وقار اور مستقل مزاجی کے معانی بھی روبہ زوال ہیں کہ سیاست کرنے والے ”سائیس“ ہی اپنے مقام و مرتبہ کو باور کرنے کی زحمت گوارہ نہیں فرماتے ۔عہدوپیمان کو توڑنا بدعنوان لوگوں کے دائیں ہاتھ کا کام بلکہ جنبش زبان کا وطیرہ ہے اور اس پر اب نہ وہ اور نہ ہم انگشت بدنداں ہوتے ہیں ۔سیاستکار شاید خلوت میں کفِ افسوس ملتے ہوں ۔
سیاسی کارکن اور نو دولتئے ممبران ِ صوبائی و قومی اسمبلی تواس احساس ہی سے عاری ہیں ،ان کے روبرو اپنے لیڈر کی خوشنودی اور چاپلوسی ہوتی ہے جس کا حق وہ بہ احسن و اقبال اداکرتے ہیں بھلا بھرے ایوان میں جناب سپیکر ڈانٹ ہی کیوں نہ پلادیں ۔پی ڈی ایم کی کامیابی و ناکامی کا انحصار سینیٹ الیکشن پر ہے ،بولی کہاں پہنچتی ہے اس بارے کچھ کہنا بھی قبل ازوقت ہے تاہم وزیر اعظم کی تشویش کے پیچھے یہ خواہش تو ہوگی ہی کہ ایک بار پھر یہ میدان مار لیں ۔پہلے بھی تو کچھ چمک نے کام دکھایا تھا اور کچھ اوپر والے کندھا دیئے کھڑے تھے ،یہ دونوں تلواریں ابھی ان کی نیام ہی میں ہیں ،ویسے بھی غریب وفاقہ مست اراکین اسمبلی ایسے ہی لمحات کے منتظر ہوتے ہیں کہ ان کے خالی کشکول بھریں اور ان کی روزی روٹی چلے ،عوام کو درپیش مسائل کی کسے خبر اور کون ان کے غم کا ساجھے دار بنتا ہے ۔وزیر اعظم کو ملکی خسارے کی فکر دامن گیر ہے عوام تو ان کیترجیحات میں بھی تاحال شامل نہیں ،ایسا ہوتا تو مہنگائی کے طوفان بلاخیز کے سامنے بند باندھنے کی کوئی سعی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ۔عوام مریں یا جئیں اب تو قائد تحریک انصاف پر یہ عقدہ کشا ہو چکا ہے کہ اصل میں وہ ووٹ ہی کام آتے ہیں جو فرشتے ڈالتے ہیں انسان تو دھرنے کے لئے ہوتے ہیں اور ان کی ڈیوٹیاں بس اتنی ہوتی ہیں کہ ووٹ کی پرچی بیلٹ بکس میں ڈال دیں اور بس۔یوں بھی کمزور طبقات خوبصورت الفاظ کی چوسنیوں پر ہی ریجھ جاتے ہیں ،جلسوں اورجلوسوں کے آگے رقص بسمل کرتے کرتے زندگیاں لٹادیتے ہیں ،ان کے لہو کے خراج کے نتیجے میں آج تک جو بھی حکومت بنی ہے ان کے دکھوں کا مداوا تو کیا ان کی آنے والی نسلوں تک کو ان کے خوابوں کی تعبیروں سے محروم رکھا۔
ساہیوال میں کسانوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کس دھج سے کہا کہ نواز شریف حکومت نے زراعت کی ترقی اور کسان کی خوشحالی کے لئے کچھ نہیں کیا ۔مانا کہ کچھ نہیں کیا آپ نے پختون خوا کے کسانوں کے لئے کونسے سونے کے بیج مہیا کر دیئے اور اب تیںن سال ہونے کو آئے ملک کے چار میں سے تین صوبوں میں آپ کی حکومت ہے ،وفاق آپ کا ہے مگر کسان تو اب بھی خوش حالی کے خواب سے بہرہ ور نہیں ہوا اور ناں ہی شہری زندگی کے جمال میں کوئی اضافہ ہوا ہے جو پہلے نانِ جویں کو ترستے تھے وہ اب بھی بھوک کے کشٹ کاٹ رہے ہیں ،مہنگائی نے تو کمر توڑی ہی تھی ۔بےروزگاری کے عفریت کیوں ننگا رقص کئے جاتے ہیں ۔آپ کے دور میں بھی بھرے گھروں میں دھن بھرا جارہا ہے جن کے آنگنوں میں پہلے بھوک و افلاس گھات لگائے بیٹھی تھی ان کے بچے اب بھی لقمہءتر کوترستے ہیں ۔
معروف افسانہ نگارو شاعر پرفیسر سعید ایاز ایک اور سماجی مسئلے پر ماتم کناں ہیں کہ
تنگ گھراں دیاں الہڑ کڑیاں
رو رو واجاں مارن
یا ایس لنگھدی عمر نوں روکو
یا سانوں پرناؤ
فیس بک کمینٹ