کار گاہ ِ سیاست میں کیا سچ ہے اور کسے دروغ مصلحت آمیز سے تعبیر کیا جائے زمام اقتدار رکھنے والوں کا بیانیہ ہمیشہ اور ہوتا ہے حزب اختلاف کسی اور زاویہ نگاہ سے حالات وواقعات کی توجیہ کررہی ہوتی ہے ۔اب یہ کہا جارہا ہے کہ نیب کے ہر اقدام کے پیچھے کپتان کا فرمان ہے اور یہ فقط عمران حکومت کا معاملہ نہیں جو بھی سیاسی جماعت جتنا عرصہ اقتدار میں رہے قومی اداروں کی گردن میں اپنی فرمانروائی کا طوق ڈال کر ہی رکھتی ہے۔سیاسی حکومتوں کے لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ اداروں کو اپنا پابند رکھے بغیر حکومت نہیں چلائی جاسکتی،حالانکہ اس طرح حکومتیں خود کو اداروں کے ہاتھوں یرغمال بنالیتی ہیں گویا کہ صید خود کو حوالہء دام کرتا ہے یوں ادارے ہی سیاہ و سفید کے مالک بن جاتے ہیں جو اپنے کئے کے سارے اعمال حکومت کے کھاتوں میں جمع کراتے چلے جاتے ہیں نتیجہ کار یہ کہ حکومت کا اعمال نامہ سیاہ ہوتا چلاجاتاہے،سال ہا سال سے ہم یہی تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
حکومت اپنی ساری کوتاہیوں کا بوجھ نوکر شاہی پر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نوکرشاہی حکومت کی کمزوریوں پر گہری نظر رکھتی ہے اور انہی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے غلط یا درست پر حکومت کی مہر تصدیق ثبت کرواتی چلی جاتی ہے اس طرح حکومت کی رخصتی کے سارے اسباب وعلل پورے ہوجاتے ہیں تو اوپر رپورٹ بھجواکر سرخروہوجاتی ہے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت ہو کہ پی پی پی کی دونوں کے ساتھ ہر بار یہی ہاتھ ہوا۔یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی آزمائش کے ادوار تھے،ہاں مگر مسلم لیگ ن اس آزمائش سے نمٹنے کے لئے ہر بار اوپر والوں سے ساز باز میں کامیاب ہوتی رہی ہے کہ یہ جس گود میں پل کر جوان ہوئی اس کی سرشت کا یہ حصہ ہے اور یہ اپنی اس مجبوری سے دست کشی کا سامان اب تک نہیں کر سکی۔البتہ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ میاں نواز شریف نے بغاوت کا علم اٹھایا ہے مگر ان کے بھائی شہباز شریف ان کے راستے کی دیوار بن گئے ہیں،جس کے پیچھے چوہدری نثار پورے وجود کے ساتھ ایستادہ ہیں۔
اوپر والوں سے جذبہء نفرت سے لبریز نواز شریف نے اس بار کسی کامپرومائز سے انکار کردیا۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پارٹی کی قیادت کی ذمہ داری کسی اور کے کندھوں پر ڈالنے کی بجائے اپنی بیٹی مریم نواز کو سونپ دی۔
میاں شہباز شریف کے لئے مریم نواز شریف کی جانشینی اس مکھی کی مثل ہے جو دیکھے بھالے نہیں نگلی جاسکتی۔خادم اعلیٰ اپنی لگ بھگ پندرہ سالہ کار کردگی پر ہمیشہ شاداں وفرحاں رہے ہیں۔اپنی اس شادمانی کو کیش کروانے کے لئے انہوں نے کس کس درپر دستک نہیں دی مگر پذیرائی کا کوئی دَر اُن پر وا نہیں ہوا۔جماعت کی سپورٹ اور ووٹ ان کے حق میں اسقدر پڑنے کا امکان نہیں کہ وہ اپنی برسوں پرانی راج دھانی پنجاب ہی میں حکومت بنانے کے روادار ہوسکیں۔لیکن یہ بات ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
شہباز شریف اپنے بیٹے حمزہ شہباز کی جانشینی کا جوخواب دیکھ رہے تھے اس کی تعبیر بھی اب کوسوں دور ہوگئی ہے،پھر بھی اپنی اعلیٰ خدمات کے صلے کا امکان ان کے دل و دماغ میں ایسا بسا ہوا ہے کہ اس کے سحر سے نکل ہی نہیں پارہے۔ اپنے موجودہ رویوں سے انہوں نے مولانا کے دل میں بھی شک و ریب کے کانٹے بو دیئے ہیں دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرداری نے پوری مسلم لیگ ن کو ناقابل بھروسہ قرار دے دیا ہے۔انہوں نے برملاکہا کہ ”ہم ن لیگ کوساتھ ملاکر طاقتور بناتے ہیں تو وہ ڈیل کرلیتی ہے،اب پھر ن لیگ پی ٹی آئی کی بی ٹیم بن گئی ہے“۔یقیناََ ایسا شہباز شریف ہی کی وجہ سے محسوس کیا جارہاہے جو نواز شریف کے بیانئے کی مخالف سمت چل رہے ہیں قائد مسلم لیگ کی سوچ کے متوازی ایک نیا بیانیہ مرتب کرنے کی کوشش میں ہیں۔حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ انہیں ذہنی اور نفسیاتی طور یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہئے کہ مریم نواز شریف ہی مسلم لیگ ن اور اور نواز شریف بیانئے کی اصل وارث ہیں۔جن کے حق وراثت کوکسی طور چیلنگ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بات تو اب تحریک انصاف حکومت سے بھی مخفی نہیں رہی۔اس نے نیب کے ذریعے مریم نواز کی قوت کا اندازہ لگا لیااور اسے سوئے ہوئے شیر کو جگانے کی قیمت بجا طور پر معلوم ہوگئی۔گو اس میں کوئی شک نہیں کہ مریم نواز شریف نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے ساتھ ہونے کے باوجود صریحاََ دونمبری کا سہارا بھی لیا،جس پر سے میڈیا نے پردہ ہٹادیا،کمپیوٹر کارستانیوں کے جو گُر محترمہ دو عشروں سے استعمال کرتی آرہی ہیں اب میڈیا والے ان سے دو چار ہاتھ آگے نکل چکے ہیں۔
فیس بک کمینٹ