یہ ضیاء آمریت کے دنوں کی بات ہے جب پی ٹی وی کے پہلے پروگرام ڈائریکٹر اور بھٹو دور میں تعینات کئے جانے والے پہلےچیئر مین پی ٹی وی اسلم اظہر اور مدیحہ گوہر کے ساتھ ملکر ہم نے آسٹریلیا سے آئے ہوئے انڈین نژاد آسٹریلوی بادل سرکا ر سے تھرڈ تھیٹر کی تربیت حاصل کی۔بادل سرکار تو چلے گئے مگر اسلم اظہر،مدیحہ گوہر اور مجھ سمیت اجوکہ تھیٹرکے بہت سارے دوستوں پر مارشل لاء کا مقدمہ قائم ہوا (یہ ایک لمبی کہانی ہے) پھر بینظیر حکومت بنی تو اسلم اظہر چیئرمین پی ٹی وی بنادیئے گئے،یہ وہ شخص تھے جن کے اوپر بدعنوانی کا کوئی داغ نہ لگا۔
اس مختصر تمہید کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔وہ یہ کہ جب کسی کو اپنی ناک کے نیچے بہت کچھ ہوتا ہوا دکھائی نہ دے تو وہ دور دراز کے مناظر پر نظریں گاڑ لیتا ہے۔پھر دل و دماغ جو تانے بانے بُنتا رہے اسی کو سچ تصور کر لیا جاتا ہے اور یہی کچھ آج کل ایک معاصر اخبار کے میرے وسیب کے ایک کالم نگار کررہے ہیں،جنہوں نے اپنے ایک یار کے ساتھ ملکر صحافت کے ایوانوں میں ناروا تھر تھلی مچائی ہوئی ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ موصوف تحریک انصاف کی طرف سے اپنے ایک انتہائی ادب شناس،ماہر قانون اور فنِ گفتگو میں مہارت رکھنے والے،فنون لطیفہ کے دلدادہ نعیم بخاری کو پاکستان ٹیلی وژن کا چیئرمین بنائے جانے پر دلگرفتہ ہی نہیں دلبرداشتہ دکھائی دیتے ہیں اور عمران حکومت کے اس فیصلے سے انہیں یوں لگا ہے جیسے پی ٹی وی پر حکومت کا قبضہ ہوگیا ہو۔ان کے ذہنِ نارسا سے یہ بات اتر ہی گئی کہ پی ٹی وی ایک حکومتی نشریاتی ادارہ ہے اور یہ سرکار ہی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔اب یہ سرکار کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ جسے بھی اس کا سربراہ بنا دے۔
مسلم لیگ ن کے زریں ادوار میں یہ نشریاتی ادارہ سراسر ناشائستہ،غیر سنجیدہ لوگوں کی صوابدید پر رہا جنہوں نے ادارے کی ترقی کے لئے کام کرنے کی بجائے اپنے خاندان کی خوش حالی کو حرزِ جاں بنائے رکھااور اربوں روپے کی کرپشن کے نشانات چھوڑ گئے۔اب نہ جانے میرے وسیب کے معروف کالم نگار کو نعیم بخاری بھاتے نہیں یا وہ سابق چیئرمین کو صحافی اور کالم نگار ہونے کی وجہ سے رعایتی نمبر دینے پر تلے ہیں۔
بہر حال یہ طے شدہ بات ہے کہ نعیم بخاری ہر لحاظ سے پی ٹی آئی کا ایک اچھا انتخاب ہے،رہی یہ بات کہ نئے نویلے چیئر مین نے صاف الفاظ میں یہ اعتراف کیا ہے کہ وہ حکومتی پالیسیز کو فالو کریں گے،تو یہ وہ سچ ہے جو ہر کوئی بولنے کی جراء ت
نہیں کرتا۔
پی ٹی وی ایک سرکاری نشریاتی ادارہ ہے اور حکومت اس کے ذریعے اپنے سیاہ و سفید کو پیش کرتی ہے،اس کی پالیسزکی تنقید و توبیخ کے لئے ایک دو نہیں بیسیوں نجی چینل ہیں جو بے لاگ تبصرے ہی نہیں کرتے،بے حساب ایسے تجزیئے بھی کرتے
ہیں جو دل آزارہوتے ہیں۔ان کے سوا یہ کہ ایسے شوزاور ڈرامے بھی پیش کرتے ہیں جنہیں ہماری اقداروروایات سے دور کا واسطہ نہیں ہوتااورنہ ہی ہماری تہذیب و ثقافت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔
تحریک انصاف کے دوسال سے زیادہ عرصہ اقتدار میں پی ٹی وی یا کسی بھی نجی چینل پر کوئی بھی ایسا پبلک شو یا ڈرامہ پیش نہیں کیا گیا جو ہماری حقیقی شناخت کی نمائیندگی کرتا ہو۔البتہ نعیم بخاری سے یہ امید ضرور کی جاسکتی ہے کہ وہ کم از کم پی ٹی وی کو اس کی سابقہ روایات سے جوڑنے کے امین بنیں گے،جو اشفاق احمد،بانو قدسیہ،انور سجاد،منو بھائی،امجد اسلام امجد اور اصغرندیم کے نام سے پہچانی جاتی تھیں۔
نجی چینلز نے ہماری جس شناخت کو تاراج کرنے کی روش اپنائی ہوئی ہے اس کے راستے میں کلاسیک کے احیا سے کوئی بند باندھیں گے،موسیقی کے نام پر جس لچر پن کو رواج دیا جا رہا ہے اس کے مدمقابل اصل فن کاروں کی نمائیندگی ممکن بنائیں گے،فنون لطیفہ کی بچی کھچی آبرو کو بچانے کے لئے کنج تنہائی میں بے نامی کی زندگی بسر کرنے والے ماہرین فن کی تلاش کا وسیلہ بنیں گے اور وہ فنون اور فنکار جو کسی سربراہی کے نہ ہونے کی بِنا پر کفالت سے محروم ہیں ان میں زندگی کی نئی روح پھونکیں گے۔
میرے وسیب (سرائیکی خطہ) کے کا لم نگار کو تحریک انصاف کی اس تعیناتی کی خامیاں اور خرابیاں تو پہلی نظر میں بھلی نہیں لگیں،موصوف کا ایک بھائی جو وفاقی محکمے میں معمولی عہدے پر فائز ہے،مگر بڑے سے بڑے افسر کی پگڑی اتار لینے میں ذرا بھر تامل نہیں کرتا۔ایسا کس وجہ سے ہے؟اس پر کسی کی گرفت کیوں ممکن نہیں؟
یہاں نعیم بخاری کے حوالے ایک بات ضروری ہے کہ کہ ان کا شمار فیض صاحب کے چاہنے والوں میں ہوتا ہے،وہ زندگی کے رومانوی رویوں کو اچھی طرح جانتے ہیں اورانہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی کیا ہوتی ہے،اظہار ان کا وسیلہ رہاہے اور وہ لوگ جن سے یہ حق چھین لیا جاتا رہا ان کی اذیتوں سے یہ خوب آشنا ہیں،انہیں خبر ہے کہ جس لفظ کو گویائی اذن نہ ملے وہ پتھر بن جاتا ہے،ایک ایسا پتھر جو کسی پر گرتا ہے تو اسے ایستادگی سے محروم و محتاج کردیتا ہے۔ نعیم بخاری آپ کی سربراہی میں پی ٹی وی کو ہر بے زبان کی زبان بن جانا چاہیئے۔ہمیں آپ سے یہی امید ہے۔
فیس بک کمینٹ