لکھنا بھی ایک لت ہے پڑجائے تو قبر کے دہانے تک جان نہیں چھوٹتی،سُن گُن لینا بھی اس لت کا حصہ ہے،کان کھڑے رکھنے پڑتے ہیں اور آنکھیں کھلی۔اس میں یادداشت کا بھی عمل دخل بہت ہوتا ہے جو ماضی کے واقعات یاد دلاتی رہتی ہے،گو لکھنے والوں کے الفاظ کی اب حرمت نہیں رہی،کیونکہ یہ خود عمل سے بے بہرہ ہیں،جو کہتے ہیں کرتے نہیں،جوکرتے ہیں اس کو حرف حق سمجھتے ہیں بھلے اس میں بہتری کا پہلو ہو یا سرے سے نہ ہو۔
کچھ کہنے سے پہلے تمہید معنی کے در کھولنے کے لئے ہوتی ہے،یہی بات کی ساری گرہیں کھولتی ہے یہ نہ ہو تو لکھنے والے کا مافی الضمیرسامنے نہیں آتا اور یہ ضمیر ہی کا سب کیا دھرا ہوتا ہے جو آدمی کے اندر کا سچ اگلوادیتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت اقتدار کے دو سال پورے کرنے جارہی ہے،ان دو سالوں میں اس نے جتنے کھلواڑ ڈالے ہیں ان کی توجیح و توضیح اس کے ہر کارکن کے پاس موجود ہے یہ الگ بات کہ وہ کسی دلیل کی ضرورت محسوس نہیں کرتے،اچھے بھلے بھلا برا جاننے والے بھی سوشل میڈیا پرآنکھوں پر پٹیاں چڑھا کر پوسٹس لگاتے ہیں،ایسے کہ بعض اوقات ان کی دماغی حالت پر شک سا ہونے لگتا ہے۔اس بارے میاں نواز شریف کے متوالے بھی کسی سے کم نہیں،مگر وہ اپنے قائدین کے ماضی پر فخرو انبساط کے سوا کچھ نہیں کرسکتے جبکہ تحریک انصاف کے پاس تو ملک کے باگ ڈور ہے اس کے
پڑھے لکھے کارکنوں کو اندھی تقلید کی بجائے مثبت پہلوؤں کی نشاندہی کرنی چاہیئے، صائب مشوروں سے حکمرانوں پریہ آشکار کرنا چاہیئے کہ جو غلطیاں پچھلوں سے سر زد ہوئیں ان سے دامن بچاکے چلیں۔
کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ ایک بلب سے روشن ہونے والی جھونپڑی ہو کہ ہزار قمقموں سے جگمگانے والا کوئی عشرت کدہ دونوں ٹی وی رکھنے کا بھتہ 35روپے بھرتے تھے،اب 100روپے ادا کریں،آخر کیوں؟ اور تو اور مساجد اور مدارس کے بل پر بھی یہ بھتہ لاگو ہوتا ہے اس کا کوئی جواز اور دلیل ہے بزرجمہران تحریک کے پاس،وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے پاس ؟ ماسوا یہ کہ مفلس و نادار لوگوں کی بددعاؤں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے کے۔!
غالباََ مسلم لیگ ن کی حکومت نے ٹی وی فیس کا طوق قوم کے گلے میں ڈالاتھا،میاں نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہے، اسی طرح ان کی جماعت کی حکمرانی کا دورانیہ کل پندرہ سال بھی رہا ہو،واپڈا کے صارفین کی کل تعداد ملک بھر میں فقط دو
کروڑ ہو تو ہر ماہ 7ooooooooکروڑ جمع ہوتے رہے،پندرہ سال کے 180مہینے بنتے ہیں،اب ستر کروڑ کو ایک سو اسی سے ضرب دیں (180×700000000)ایک کھرب اور چھبیس ارب بنتا ہے،یہ اتنی بڑی رقم کس کی جیب میں گئی؟ اور اب صاف چلی،شفاف چلی حکومت کو بائیس ماہ ہوچلے ہیں ان بائیس ماہ میں (15400000000) پندرہ ارب اور چالیس کروڑ حکومت کے پاس جمع ہوئے۔یہ کس اکاؤنٹ میں پڑے ہیں کس مد میں خرچ ہوئے یا ہو رہے ہیں۔ویسے میاں نواز شریف پر تو قوم کا ایک اور قرض بھی ہے کہ انہوں نے اپنی ہونہار بیٹی مریم نواز کو نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے ایک ادارے کی سربرا ہی تفویض کی جس کے ذریعے رجسٹریشن کی مد میں اربوں روپے جمع کئے گئے،پھر وہ ادارہ ماضی کی گپھا میں ڈوب گیا تو ساری رقم موصوفہ کے ذاتی کھاتوں میں دھری رہ گئیں،قوم اس کا بھی حساب مانگتی ہے۔ابھی قرض اتارو ملک سنوارو کے نام پر جمع کی گئی رقوم کا حساب بھی میاں نواز شریف کی طرف باقی ہے۔
تحریک انصاف کی حکو مت ان ساری رقوم بارے قوم کو آگاہ کرے اور ساتھ ہی یہ بتائے کہ ٹی وی فیس بڑھانے کا مشورہ کس نابغہ روزگار وزیر نے دیا اور ٹی وی فیس بڑھا کر قوم کو اس رقم کے بدلے خوشحالی کا کونسا عندیہ دینے جارہی ہے؟ البتہ ہماری عدلیہ نے ایسے کسی معاملے کو شجر ممنوعہ سمجھ کر کبھی نہیں چھیڑاکہ یہ عوام کے حقوق کام معاملہ ہے اور عوام کے مسائل عدلیہ کی دسترس سے باہر ہیں،ان کے زخموں کا مرہم عدلیہ کے پاس نہیں ہے کہ اس کے اپنے زخم چھپائے نہیں چھپ رہے،کچھ حساب قوم کے اس کی طرف بھی بنتے ہیں،جسٹس منیر کے مولوی تمیزالدین والے فیصلے سے لیکرپرویز مشرف کے فیصلے تک۔جومر گئے ان کا حساب تو دفن ہواجو زندہ ہیں وہ بھی مقدس ٹھہرے کہ عدلیہ انہیں چھیڑنے کے بعد اپنا آپ کیونکر بچاسکے گی،ہم توعدلیہ کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں مگر سوشل میڈیا پر لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ وہ احترام جو خوف کی بنیاد پر ہو وہ سسٹم میں دراڑیں ڈالتا ہے۔اگر ریاست کے دو بڑے آرگن اپنے حساب سے سیاست میں اپنی طاقت کے ساتھ مداخلت کریں تو انہیں تنقید بھی برداشت کرنی چاہئے کہ آج کی دنیا میں تجزیئے اوررائے کو روکا نہیں جا سکتا۔وللہ اعلم
فیس بک کمینٹ