گزشتہ سے پیوستہ
مرد کو گھر چھوڑنا ہی پڑتا ہے، پڑھائی ہو یا کمائی۔ بھائی جان جو کل تک میرے واحد دوست تھے، مجھے سالگرہ پر کتابوں کے تحفے دیا کرتے تھے، نویں جماعت میں فہمیدہ ریاض کیً پتھر کی زبان ً ، ایف اے میں جین آئر اور بی اے میں آسکر وائلڈ سے روشناس کرایا۔ پھر بہترین انگلش اردو فلمیں انہی کی بدولت دیکھنے کو ملیں۔دلیپ مدھوبالا کی سنگ دل ، نارمن وزڈم کی اسٹچ ان ٹائم، عمر شریف کی ڈاکٹر ڑواگو یہ اور بےشمار دوسری یادوں میں ان کے ساتھ دیکھی ہوئی فلمیں آج تک ، میں بھولی نہیں ۔ لیکن اب بھائی جان ایم بی بی ایس، کرنے کے بعد ڈاکٹر انور زاہدی بن چکے تھے اور فوج میں جانے کے شوق میں مبتلا تھے، اور یہ وہ برے دن تھے کہ بس سقوط ڈھاکہ ہونے کو تھا، وہ فوج میں گئے اور جنگ چھڑ گئی، ان سے پہلے کا گروپ ًپی او ڈبلیوً بن چکا تھا ، یہ بچ تو گۓ مگر ایک آزاد زندگی گزارنے کے بعد ًیس سرً کی خدمت سے چند ہی روز میں جی اوبھ گیا ۔ پاپ (سید مقصود زاہدی) نے تو ہمیں وہ ماحول دیا تھا کہ شاید خواب میں بھی بہ مشکل میسّر آ سکے، اب معاملات یکسر الٹ چکے تھے،
ڈاکٹر ہونے کے باوجود زندگی مشکل ترین بن گئی تھی، پاپا کو مدد کے لئے پکارا، وہ مجھے اور امی کو اکیلا چھوڑ کر تین ماہ کے لئے پنڈی جا کر بیٹھ گئے، وہاں اپنے ہر تعلق اور رابطے کو آزمایا، ان کے ادبی حوالوں میں ایک میجر جنرل شفیق الرحمن بھی تھے، جنہوں نے کہا : ًایک ہی بیٹا تو فوج میں لیا ہی نہیں جاتا،انور گیا کیوںً؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ پاپا کی تین مہینے کی جدوجہد نے بھائی جان کو دو سال میں رہائی دلوائی۔ اور اس عرصے میں امی کی کون سی بیماری نہیں تھی جس نے سر نہ اٹھایا ؟ السر، بی پی، جوڑوں کے درد، پھر پاپا کی اداسی اور گہری چپ جو دل دہلائے دیتی تھی۔وہ میرے ہنسنے کھیلنے کے دن تھے،جب میں نے ہاتھ میں ہومیوپیتھک میٹیریا میڈکا اٹھایا اور ایلوپیتھک دواوں کے لٹریچر کو بغور پڑھنا شروع کیا۔ بی پی دیکھنا اور انجیکشن لگانا سیکھا ، مجھ میں ایک نادیدہ خوف پیدا ہو گیا، میں راتوں کو امی پاپا کے سرہانے کھڑی ہو جاتی کہ کچھ ہو نہ جاﺅ۔۔ یہ خوف پھر کبھی دل سے نکلا ہی نہیں، بعد میں بھائی جان لاہور، ایران، اسلام آباد جا بسے،(وہ سلامت رہیں ہزار برس،عمر میری بھی ان کو لگ جائے) ،مگر میں اکیلی ہو گئی تھی اور اب میرے عزیز ترین ساتھی امی، پاپا تھے۔ان سے جدائی مجھے کسی طَور گوارا نہ تھی اور میرا وہ حال تھا: اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے۔۔شاید میر تقی میر نے یہ میرے لیے ہی کہا تھا: تو ہے کس ناحیے سے اے دیارِ عشق کیا جانوں؟