رثاءعربی لفظ ہے جس کے معنی میت پر رونے کے ہیں۔ اسی سے لفظ مرثیہ بنا ہے ۔ مرثیہ ایسی ہی نظموں کو کہا جاتا تھا جن میں رثائی وصف ہو، لیکن اب بالخصوص اردو میں مرثیہ اس نظم کو کہتے ہیں جس کا موضوع واقعات کربلا ہوں۔ اگرچہ دیگر شخصی مرثیے بھی اردو ادب کا حصہ ہیں لیکن بحیثیت مجموعی اب یہ صنف واقعہ کربلا سے ہی مخصوص ہو گئی ہے ۔
وا قعۂ کربلا 61ھ میں رونما ہوا جس میں حضرت امام حسینؑ کی شہادت ہوئی۔ اس واقعہ کی یاد ہر سال منائی جاتی ہے چنانچہ عربی میں بھی واقعہ کربلا سے متعلق رثائی نظمیں لکھی گئیں۔ یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ امام عالی مقام کی ہمشیرہ معظمہ نے سب سے پہلا مرثیہ لکھا تھا جس کا پہلا
اردو میں مرثیے کی صنف بہت مقبول رہی ہے۔ اردو میں مرثیہ دکن کے صوفیائے کرام کی سرپرستی میں پروان چڑھا۔ اشرف بیابانی کی نو سربار (1503ء) کو مرثیہ کا نقطۂ آغاز سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد شاہ برہان الدین جانم اور شاہ راجو نے بھی مرثیے لکھے۔ محمد قلی قطب شاہ، غواصی اور وجہی کے یہاں بھی مرثیے ملتے ہیں۔ شمالی ہند میں مرثیہ نگاری کا آغاز روشن علی کے ’’عاشور نامے“ سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد فضل علی کی ’’کربل کتھا’‘ کا نام آتا ہے جو نثر میں ہے۔ شمالی ہند کے مرثیہ نگاروں میں مسکین، محب ،یکرنگ اور قائم وغیرہ نے بھی مرثیے لکھے۔ محمد رفیع سودا نے اردو مرثیہ کو مسدس کی ہیئت عطا کی۔ اٹھارویں صدی میں لکھے جانے والے مرثیے اپنے ارتقاء کے ابتدائی مراحل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انیسویں صدی کا آغاز مرثیے کی ترقی کی نوید لاتا ہے، اس زمانے میں جن لوگوں نے مرثیے لکھے ان میں دلگیر، فصیح، خلیق اور ضمیر کے نام اہمیت رکھتے ہیں۔ ضمیر کے شاگرد، دبیر اور خلیق کے لڑکے انیس نے اردو مرثیے کو بام عروج پر پہنچایا
مدینۃ الاولیاء کہلانے والے شہر ملتان میں بھی مرثیے کی روایت بہت قدیم ہے ۔
ادیب و مؤرخ حفیظ خان کی تحقیق کے مطابق ’’خطہ ملتان میں عزاداری اسی وقت شروع ہو گئی تھی جب واقعہ کربلا کے سال سوا سال بعد دت قوم کے کچھ افراد حضرت امام حسینؑ سے عقیدت رکھنے کے باعث مظالم کا شکار ہوئے اور 681ء کے لگ بھگ ایران کے راستے ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں آباد ہوئے۔ اس وقت ایران اور عرب کے زیراثر دت قوم کے ان لوگوں نے مخلوط زبان میں گلی گلی عزاداری کی اور اس منظوم صنف کو عام کیا جو کبت کہلائی اور کبت خوانی کرنے والے یہ اصحاب ’’حسینی باہمن‘‘ کے نام سے جانے گئے۔
حسینی باہمنوں کے کہے ہوئے یہ کبت ہی خطہ ملتان اور سرائیکی زبان میں مرثیہ کی ابتدائی شکل ہیں‘‘۔ کیفی جامپوری اپنی کتاب ’’سرائیکی شاعری‘‘ میں رقم طراز ہیں ’’جب تاتاریوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو وہاں سے جان بچا کر نکلنے والے علماء‘ شرفاء اور سادات نے قربت کی وجہ سے ملتان میں آ کر پناہ لی‘ ان میں اکثریت شیعہ عقائد رکھنے والوں کی تھی جن کے مذہبی عقائد نے اہل ملتان پر خاصا اثر ڈالا۔ آج بھی ملتان میں ایسے گھرانے موجود ہیں جن کے آباؤ اجداد نے اسی زمانہ میں شیعہ عقائد کو قبول کیا تھا‘‘
مرثیہ ایک ایسی صنف سخن ہے جو لگ بھگ دنیا کی ہر زبان میں موجود ہے کیونکہ اس دنیا میں غم زیادہ اور خوشیاں کم ہیں۔ اسی طرح دردناک واقعات کے بیان کے لئے سرائیکی مرثیہ ضرب المثل ہے۔ ملاحظہ ہو
پہلے پہلے رُنّوں بچڑا نانے محب صفا کوں
وَل زہرا وَل حیدرؓ کوں رو سیس حسن رضا کوں
اور بی بی سیدہ زینب کے درد کو اس پردرد انداز میں پیش کیا گیا
ڈیکھ کے زخمی بابے کوں رو زینبؓ نے فرمایا
آن بنی نہ خبر لگی ہے گھائل ہو کر آیا
پہلوں سارے گزر گیاں ولے درداں مار مکایا
کون یتیم سنبھالے بابا بالکل ملک پرائی
ا گلا تذکرہ شاہ یوسف گردیز کا ہے، جنہوں نے حضرت میراں موج دریا کی صحبت سے فیض حاصل کیا۔ آپ کے مقبرہ کو جس عقیدت سے بنایا گیا، اس کا مظہر وہ اینٹیں ہیں جو اب لندن کے کرامویل روڈ میں ہندوستانی آثار قدیمہ کے نمونے کے طور پہ سجی ہیں۔
محرم کا چاند نکلتے ہی یہاں مجالس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے سب سے بڑی مجالس گامے شاہ، شاہ یوسف گردیز اور شاہ شمس کے مزارات پر ہوتی ہیں ملتان کا شمار پاکستان کے اُن شہروں میں ہوتا ہے جہاں یومِ عاشور کے موقع پر ایک بڑی تعداد میں ماتمی جلوس نِکالے جاتے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں سے ذوالجناح، علم اور تعزیے کے لگ بھگ چارسو دس ماتمی جلوس نکلتے ہیں جن میں بڑی تعداد تعزیے کےجلوسوں کی ہوتی ہے
فیس بک کمینٹ