’درندہ ۔ ناسور‘
’بندر۔ چوہا‘
’لاڈلا۔ کٹھ پتلی‘
’اقامہ۔ تنخواہ‘
آج کل جلسوں میں جائیں یا چینلوں پر سنیں تو یہ الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔ ہر جلسے میں مقرر کے پیچھے چھ سات کھڑے ہوتے ہیں۔ جو آپس میں سرگوشیاں کرتے رہتے ہیں۔ دیکھنے والے کی توجہ بانٹتے رہتے ہیں۔ ان جلسوں پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ قوم کے ہزاروں افراد کے جو قیمتی اوقات صرف ہوتے ہیں۔ ان کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔
ایک زمانہ تھا جلسوں کے لئے جب سیاسی پارٹیاں ترستی تھیں۔ انگریز کا دور تھا یا فوجی آمروں کا۔ سخت پابندیاں ہوتی تھیں۔ کسی گھر میں بھی آٹھ دس لوگ جمع ہوجاتے تو دھر لئے جاتے۔ لفظ ’جمہوریت‘ کے استعمال پر 25سال قید بامشقت سنادی جاتی۔ عوام سے رابطے کی قدر ان لیڈروں سے جانیے جو کئی کئی سال جیلوں میں قید تنہائی کاٹتے تھے۔ کسی ایک چھوٹے سے پیغام کے لئے کیا کیا جتن کیے جاتے تھے۔ سگریٹ کی خالی ڈبیوں میں ورق کے پیچھے کچھ لکھا جاتا کھانے کے ٹفن میں روٹیوں میں پرچی چھپائی جاتی۔ ملاقاتیوں سے اشاروں میں بات کی جاتی۔
اچھے موسم آتے۔ جلسوں کی اجازت ملتی تو کیا کیا اہتمام ہوتا۔ کتنی تیاریاں کی جاتیں۔ جلسے سے پہلے سینٹرل کمیٹی کے اجلاس منعقد ہوتے۔ اس میں پہروں تبادلہ خیال ہوتا کہ لوگ کیا سننا چاہتے ہیں۔ اس علاقے کے لوگوں کا کیا مزاج ہے۔ کیا مسائل ہیں۔ ہوا کس رُخ پہ چل رہی ہے۔
جلسہ شروع ہوتا تو پارٹی کا قائد موجود ہوتا۔ سارے لیڈروں کی تقریریں سنتا۔ شاباش دیتا۔ سامعین بھی غور سے سنتے۔ اسٹیج پر سب لوگ بیٹھے ہوتے۔ کوئی مقرر کے پیچھے کھڑا نہیں ہوتا تھا۔ بڑے لیڈر بولنے لگتے۔ کئی کئی گھنٹے بولتے۔ کبھی دھیما کبھی اونچا۔ تقریروں میں اُتار بھی ہوتا۔ چڑھاؤ بھی۔ سننے والوں کے دِل ڈوبتے بھی تھے۔ تیز تیز دھڑکتے بھی تھے۔ جوش میں بھی آجاتے۔ کھڑے بھی ہوجاتے۔ سب دریوں پر بیٹھتے تھے یا چٹائیاں ہوتیں۔ اکثر مقامات پر مٹی پر ہی بیٹھ جاتے۔ کرسیاں صرف اسٹیج پر ہوتی تھیں۔ تقریر میں سسپنس بھی ہوتا۔ کلائمیکس بھی۔ تاریخی انکشافات۔ سربستہ راز کھولے جاتے۔ عوام کی ذہنی،سیاسی، اخلاقی تربیت ہوتی۔ ان جلسوں میں صرف اسی پارٹی کے لوگ نہیں۔ دوسری پارٹیوں کے بھی سننے آتے۔ اپنے طور پر اپنے خرچ پر لوگ جلسہ گاہ میں پہنچتے۔ بعض دوسرے شہروں سے بھی آتے کہ پھر کبھی یہ سنہری موقع ملے کہ نہ ملے۔
ذوالفقار علی بھٹو۔ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی۔ شیخ مجیب الرحمن۔ شورش کاشمیری۔ مولانا عبدالستار خان نیازی۔ مولانا شاہ احمد نورانی۔ خان عبدالولی خان۔ مولانا مفتی محمود۔ مولانا غلام غوث ہزاروی۔ معراج محمد خان۔ کئی کئی گھنٹے تقریریں کرتے۔ یہ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں ان سب کی تقریریں۔ مجمع کو اپنی طرف کھینچتی تھیں۔ ان سب کی تقریروں میں پیغام بھی ہوتے تھے۔ حکمت بھی۔ فلسفہ بھی۔ نظریات بھی۔ یہ سامعین کو اپنے ساتھ لے کر چلتے۔ انہیں رُلاتے بھی ہنساتے بھی۔ جوش بھی دلاتے۔
ان سے پہلے سردار عبدالرب نشتر۔ نواب بہادر یار جنگ۔ خان عبدالغفار خان۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری۔ قاضی احسان احمد شجاع آبادی۔ مولانا سید ابو الحسنات قادری۔ مولانا عبدالحامد بدایونی۔ علامہ رحمت اللہ ارشد۔ میاں افتخار الدین۔ سی آر اسلم۔ میجر اسحاق کی تقریریں بھی تاریخ کے اوراق مرتب کرتیں۔ سوئے ذہنوں کو بیدار کرتیں مردہ ضمیروں کو زندہ کرتیں۔ سچ جھوٹ پرکھنے میں مدد کرتیں۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی تقریریں تو عشاء کے بعد سے شروع ہو کر فجر کی اذان تک بھی جاری رہتیں۔کسی مرحلے پر سامعین اُکتاتے نہیں تھے۔
ان جلسوں نے ہی تحریک آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ تحریکِ پاکستان کو منزل مقصود تک پہنچایا۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی بڑے شعلہ بیاں مقرر ہوتے تھے۔ یہ جلسے نتیجہ خیز ہوتے۔ ذہن سازی کرتے تھے۔ذمّہ دار شہری بناتے تھے۔
اب جلسوں پر بلا مبالغہ کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ کرسیوں کا کرایہ۔ اسٹیج ہائی ٹیک اہتمام۔ سائونڈ سسٹم۔ کارکنوں کا کرایہ۔ ٹرانسپورٹ پر اخراجات۔ ہیلی کاپٹر کا خرچہ۔ کارکن تو کئی کئی گھنٹے پہلے آجاتے ہیں۔ لیڈر عین وقت پر آتے ہیں۔ کسی کی تقریر نہیں سنتے۔ صرف اپنی سنا کر چلے جاتے ہیں۔ انہیں خبر نہیں ہوتی پہلے کس لیڈر نے کیا کہا۔ سامعین بھی غور سے نہیں سنتے۔ آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ صرف لیڈر کو دیکھتے ہیں۔ پہلے جو چھوٹے لیڈر تقریریں کرتے ہیں۔ اپنے قائد کے قصیدے پڑھتے ہیں۔ ان کی آرزو ہی رہتی ہے کہ ان کا ممدوح اپنی مدح خود سن لے۔تقریروں کے دوران شور مچتا رہتا ہے۔
جب مرکزی رہنما تقریر کرتا ہے تو چھ سات لیڈر پیچھے کھڑے رہتے ہیں۔ کیونکہ کیمرے میں مسلسل آرہے ہوتے ہیں۔ وہ خود ہی مسکراتے بھی ہیں۔ گھر والوں کو پیغام بھی دے رہے ہوتے ہیں کہ ٹی وی دیکھیں۔ تقریر میں کیا کہا جارہا ہے۔ اس سے کسی کو غرض نہیں ہوتی۔
ہم کو اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اب ہمیں اظہار کی اتنی مکمل آزادی ہے۔ جو چاہے کہہ سکتے ہیں جتنی دیر چاہیں بول سکتے ہیں اور ٹیکنالوجی کا بھی ممنون ہونا چاہیے کہ صرف جلسہ گاہ میں موجود سامعین ہی نہیں ملک بھر میں بلکہ بیرون ملک موجود پاکستانی بھی براہِ راست انہیں سن رہے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں۔
اتنی بڑی سہولت۔ اتنا عظیم موقع۔ اگر آپ کے پاس حقیقت میں کوئی پیغام ہے۔ لائحہ عمل ہے۔ روڈ میپ ہے۔ آپ واقعی قوم کی تقدیر بدلنے کا ارادہ کرچکے ہیں۔ ملک کے تمام مسائل پر آپ کی گہری نظر ہے۔ بین الاقوامی حالات۔ عالمی سازشیں۔ ہمسایوں کی چالیں آپ کے علم میں ہیں تو ان سے اپنے ہم وطنوں کو آگاہ کریں۔ انہیں حرکت میں لائیں۔ اپنا فلسفہ۔ نصب العین ان تک پہنچائیں۔ ان کو بتائیں کہ ان کو کیا کرنا ہے۔ ملک کی بہتری میں وہ اپنا حصّہ کیسے ڈال سکتے ہیں۔ عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ ان کا ووٹ ان کی رائے ہی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ اگر آپ کے پاس کسی نظام کا خاکہ ہے۔ جس میں ملکی دفاع کے رموز بھی ہیں۔ عدل و انصاف کے طریقے بھی۔ غربت کے خاتمے کے پروگرام بھی۔ وہ لوگوں تک پہنچائیں۔ یہی آپ کے دست و بازو بنیں گے۔ ملک درست سمت میں چلے گا۔ آگے بڑھے گا۔
لیکن جب آپ کوئی تیاری کرکے نہیں آتے۔ آپ کئی بار حکومت کرچکے ہیں۔ کوئی حکمت کوئی فلسفہ نہیں اختیار کرسکے۔ تو آپ محض ردّ عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ دشنام طرازی کرتے ہیں۔ پگڑیاں اُچھالتے ہیں۔ کروڑوں روپے ضائع ہوتے ہیں۔ ہزاروں لمحے صرف ہوتے ہیں۔ ملک وہیں کا وہیں کھڑا رہتا ہے۔ بلکہ پیچھے چلا جاتا ہے۔ساڑھے 6 کروڑ نوجوان پاکستان کو میسر ہیں۔ انہیں کوئی کام دیا جائے تو یقیناً ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
کوئی ایسا پیغام جس سے لوگوں کو ولولۂ تازہ ملے۔ ان کے رویے بدلیں۔ وہ سوچنے پر مجبور ہوں۔ صرف ان کو مشتعل نہ کریں۔ اداروں کے خلاف نہ اُکسائیں اس سے انارکی پیدا ہوتی ہے۔
(بشکریہ : روزنامہ جنگ )
فیس بک کمینٹ