کتاب سے عشق کے پانچ دن آنے والے ہیں۔
کل سے کراچی کتب میلہ شروع ہورہا ہے۔روزانہ لاکھوں عشاق ایکسپو مرکز کا ر±خ کریں گے۔ لاٹھی ٹیکتے بزرگ۔پہیے دار کرسیوں پر۔ شیر خوار بچے گود میں لئے۔اسکول یونیفارم میں بچے بچیاں۔ کمر پر کٹ لٹکائے نوجوان۔سب ہی اپنی اپنی پسند کی کتابیں ڈھونڈتے ملیں گے۔میں بھی آپ کو وہیں کسی ہال میں ملوں گا آئیے گا ضرور۔
ہم حرف سے لگن رکھنے والوں کی تلاش میں ہیں۔
کبھی مدینة الاولیا ملتان کی گلیوں کی خاک چھانتے ہیں۔ کبھی کوئٹہ کے کوہ مردار کے سائے میں زندگی ڈھونڈتے ہیں۔ کراچی کے ساحل پر تو اکثر امیدوں کے بادبان کھلتے دکھائی دیتے ہیں۔ لاہور کی پیڑوں بھری شاہراہوں میں مفہوم کا رشتہ الفاظ سے جوڑتے ہیں۔
موسم سازگار نہیں ہے۔ ہوائیں موافق نہیں ہیں۔ کہیں بہت گہری گھاٹیاں ہیں۔ کہیں دریا بپھرے ہوئے ہیں۔ پیش بندی نہیں کی تھی۔ منصوبے بھی سوچ سمجھ کر نہیں بنائے تھے۔ بصیرت کو قریب نہیں پھٹکنے دیا تھا۔ تدبّر اور فراست سے ہماری کبھی نہیں بنی۔دھوکہ دینے کی عادت تھی۔ خود بھی دھوکہ کھاتے رہے محسوس ہی نہیں ہوا کہ ہمیں بھی کوئی دھوکہ دے رہا ہے۔ اتنی جلدی توقع نہیں تھی کہ یوم حساب آجائے گا الوداع کہنے کی بھی اس قدر سرعت سے امید نہیں تھی۔ مگر ہونی کو کون روک سکتا ہے۔ جو بویا جاتا ہے وہی کاٹنا پڑتا ہے۔ ہماری غلط بخشیوں اور عاقبت نااندیشیوں نے برے وقت کو جلد آنے پر مجبور کردیا۔
مضمحل ہوگئے قویٰ غالب
اب عناصر میں اعتدال کہاں
ہر روز ایک دوسرے سے ملنے والے بچھڑ رہے ہیں۔ نہ جانے کہاں اور کب ملیں۔
یہ لاہور ہے۔ شہر کا سب سے مقبول ہوٹل۔ جہاں ادب و ثقافت کے عشاق بڑی تعداد میں جمع ہیں۔ نوجوان بھی بزرگ بھی۔ خواتین بھی حضرات بھی۔ پنجاب بھر سے قلم کے دھنی آئے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ شاعر۔ مزاح نگار اور سرجن جھنگ سے آئے ہیں۔ نوجوان قلم کار۔ کوئی شور کوٹ سٹی سے۔ کوئی تونسہ شریف سے کوئی ڈی جی خان کوئی ملتان سے۔ شیخو پورہ سے۔ قصور سے۔ آج کل کی افرا تفری۔ گرفتاریوں۔ ضمانتوں کے دَور میں نوجوانوں کو مضمون نگاری کی طرف راغب کرنے کی شعوری کوشش۔ لکھنا بہت بڑی طاقت ہے۔ لکھا ہوا ہی باقی رہ جاتا ہے۔ میں مارکو آریلیس (Marcus Aurelius) کی Meditations پڑھ رہا ہوں۔ یہ رومی بادشاہ۔ فلسفی بھی تھا۔ زمانہ ہے 161عیسوی۔ قریباً 1900 سال پہلے اس بادشاہ کی تو اب شاید قبر بھی کہیں نہ ملے۔ لیکن اس کے لکھے ہوئے جملے کتابی شکل میں آج بھی محفوظ ہیں۔ لکھتا ہے۔ میں نے اپنے عظیم والد سے شرافت سیکھی اور مکمل غور و فکر سے کئے گئے فیصلوں پر غیر متزلزل یقین۔ ظاہری عزت و احترام پر کوئی فخر نہیں۔ کام سے عشق اور استقامت۔ ان لوگوں کی بات بھرپور توجہ سے سننا جو عوامی مفاد میں کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اور ایسا تجربہ جس سے معلوم ہو کہ کہاں حکمرانی میں سختی کرنی ہے۔ کہاں ڈھیل دینی ہے۔“
قریباً دو ہزار سال پہلے ایسا تدبر اور ایسی بصیرت۔ ایک ہم ہیں ہمارے حکمراں کہ اکیسویں صدی میں بھی ڈگمگاتے قدموں اور متزلزل ارادوں کے ساتھ پورے ملک میں تذبذب پھیلاتے ہیں۔ نوجوانوں میں لکھنے کی تحریک میں اللہ تعالیٰ بھی کرم کررہا ہے۔ اور ماحول بھی کسی حد تک مددگار ہے۔ موضوع ہے۔’پنجابی ادب و ثقافت۔ ماضی،حال،مستقبل‘ مہمان خصوصی ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب۔ جو ’اخوت‘ کا کامیاب تجربہ کررہے ہیں۔ غربت کے خاتمے کے لئے دس ہزار کے قرضے سے آغاز ہوا۔ اب 70ارب کے قرضے جاری کررہے ہیں۔ ایسی کامیاب کوشش کہ حکومتی محکمے بھی ان کے تجربوں سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ پنجاب بھرسے نوجوانوں نے مضمون نگاری میں حصّہ لیا ہے۔ سرائیکی۔ بلوچی۔ پشتو اور سندھی ادب و ثقافت کے بعد اب پنجابی ادب و ثقافت۔ سارے پھول یکجا ہوں تو اس رنگا رنگ اور مہکتے گلدستے کو ا±ردو کہا جاتا ہے۔ میں کہہ رہا ہوں کہ اگر ا±ردو ہماری وفاقی اور سرکاری زبان ہے تو پنجابی۔ سندھی۔ پشتو۔ بلوچی۔ براہوی۔ کشمیری۔ بلتی۔ شینا کو قومی زبانیں کہنے میں کوئی ہرج نہیں ہونا چاہئے۔ یہ سب قدیم زبانیں ہیں۔ ان کا دامن ادبیات عالیہ سے مالا مال ہے۔
نوجوانوں کو احساس ہورہا ہے کہ بھارت کی طرف سے ہماری زبان۔ ثقافت۔ ادب۔ اور تمدّن پر جو یلغار ہورہی ہے ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ ا±ردو۔ سندھی۔ بلوچی۔ پشتو۔ پنجابی۔ سب کے قدیم رشتے فارسی۔ ترکی اور عربی سے جڑے ہیں۔ ہمارا ہمسایہ صرف بھارت ہی نہیں ہے۔ افغانستان۔ ایران اور چین بھی ہیں۔ اپنے تمدن اور اپنی ثقافت کی حفاظت خود کی جاتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی علاقائی ثقافتوں پنجابی۔ سندھی۔ پشتو۔ بلوچی ادبیات کا مطالعہ کرتے رہیں۔یہ زبانیں اوّل تو آنی چاہئیں اگر نہیں آتیں تو ا±ردو میں بھی ان کا منتخب ادب دستیاب ہے۔ ان کا مطالعہ کریں ان زبانوں کے فروغ سے متعلقہ سرکاری اور نجی اداروں کو ترجمے کی رفتار اور تیز کردینی چاہئے۔ایک علاقے سے دوسرے علاقے سوچیں سفر کریں گی۔ پاکستان کے بے خبر لوگ ایک دوسرے کے احساسات سے آشنا ہوں گے۔ درمیان کھڑی کی گئیں دیواریں گریں گی۔ سندھی۔ بلوچی میں کہانیاں بھی بہت اچھی لکھی جارہی ہیں۔ نظمیں بھی۔ پنجابی میں بھی نظم کا دَور واپس آگیا ہے۔ تقریب میں سلمیٰ اعوان موجود ہیں۔ ڈاکٹر اختر شمار۔ کنول فیروز۔ سرور سکھیرا۔ سونان اظہر۔ حسین مجروح۔ بشیر ریاض۔ تنویر شہزاد۔ زریں سلیمان۔ سلیم منصور۔ ناصر بشیر۔ ڈاکٹر آصف جاہ۔ اعتبار ساجد۔ سب کا عزم یہی ہے کہ پاکستان کی تہذیبی اور ثقافتی جڑیں گہری اور مضبوط ہوں تاکہ باہر سے ثقافتی یلغار کو روکا جاسکے۔
ملک دفاعی طور پر مضبوط ہے۔ جدید ترین اسلحہ بھی ہمارے پاس ہے۔ بین الاقوامی دفاعی شعور بھی ہے لیکن قومیں صرف عسکری اعتبار سے طاقت ور ہونے کی وجہ سے ترقی یافتہ نہیں کہلاسکتیں۔ انہیں تہذیبی اور تمدّنی حوالے سے بھی خود کفیل ہونا چاہئے طرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک کو نئے قومی نغمے بھی آئی ایس پی آر کی طرف سے دئیے جارہے ہیں۔ ثقافت اور تعلیم کا قبلہ بھی آئی ایس پی آر درست کررہا ہے۔
ہماری وفاقی یا صوبائی وزارتیں جو ادب۔ثقافت۔ تعلیم کے فروغ پر مامور ہیںوہ صرف معمول کا کام کررہی ہیں۔ کوئی نئی تحریک دے رہی ہیںنہ کوئی نیا نظریہ پیش کررہی ہیں۔ اب تک طے نہیں ہوسکا کہ ان علاقائی ثقافتوں سے جو پاکستانی ثقافت ظہور میں آنی چاہئے وہ کیا ہے۔ اس کے خدو خال کیا ہیں۔
اب قوم نے ساری امیدیں عمران خان سے باندھ رکھی ہیں۔واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ عمران خان کی نیت درست ہے۔ قوم کو کم از کم 2سال صبر کرنا ہوگا۔ یہ دو سال بھی قیامت کے سال ہوں گے۔ مہنگائی بڑھے گی۔ ڈالر فراٹے بھرے گا۔ سازشیں عروج پر ہوں گی۔ امریکہ دباﺅ بڑھائے گا۔ بھارت پاکستان میں فرقہ پرستی، انتہا پسندی کو ہوا دے گا۔ عمران کے میڈیا منیجر کو تحریک انصاف سے نہیں حکومت پاکستان کی طرف سے بیانات جاری کرنے چاہئیں۔ اس میں پارٹی نہیں حکومت نظر آئے گی۔ بے روزگاری ہر روز بڑھ رہی ہے۔ نوجوان بے قرار ہورہے ہیں۔ حکومت کا ان سے رابطہ ہونا چاہئے۔ زیادہ نوجوان کسی کام کے بغیر ہوں تو وہ جرائم پیشہ عناصر کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ