وہ ایک سہانی صبح تھی۔ بادلوںکی گھن گرج،کڑکتی آسمانی بجلی نے خوف سا پید اکر رکھا تھا۔صبح ہوتے ہی ہر طرف اندھیرے کی چادر تن گئی تھی۔ہوائیں زرد پتوں کو روئی کے گالوں کی طرح اڑاتی پھرتی تھیں۔رِم جھم پھوارنے برساتی بارش کاروپ دھار لیا تھا۔ہر طرف پانی ہی پانی ،چڑیاں ،کوّے،لالیاں بارش کے پانی میںنہا رہی تھیں۔ پَروں کو پھڑ پھڑا کر پانی کے چھینٹے اڑارہی تھیں۔پھربارش رُک گئی اورپانی کے قطرے سورج کی ہلکی ہلکی روشنی میں سنہرے موتیوںکی طرح چمکنے لگے ۔درختوں کی چھوٹی بڑی شاخیں مست ہواﺅں میں جھوم رہی تھیں۔ہر طرف مستی کی فضا چھائی تھی لیکن دِنیوباباگاﺅں سے شہر جاتی پکی سڑک کے کنارے آلتی پالتی مارے دور جاتی سڑک کو تک رہا تھا۔
یہی سڑک تھی جس نے اُسے کرب کی تپتی ریت پہ بیٹھا دیا اوراُسے وقت سے بہت پہلے بوڑھا کر دیا تھا۔
یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب دین محمد عرف دِینو جوان تھا۔قد کاٹھ لمبا ،سینہ چوڑا،خوبصورت نین نقش ،بھربھرا جسم ،سادہ لباس ،طبیعت میں دیہاتی پن ،سر پہ روایتی پگڑی اُس کی شخصیت کو نکھارتی تھی۔ ملنسار اورمہمان نواز تھا ۔حسن و جمال اُس کے انگ انگ سے ٹپکتا تھا۔جب بولتا تو لفظوں میں مٹھاس ہوتی ۔کسی نے اُسے لڑتے نہیں دیکھا تھا ،ہر ایک سے محبت سے ملتا تھا۔غصہ تو اُس سے دور بھاگتا تھا۔
دینو کے والد اُس کے بچپن میں فوت ہو گئے تھے۔ماں اُس وقت چھوڑ گئی تھی جب دِینو جوانی کی پہلی سیڑھی چڑھ رہا تھا۔ماں باپ کے مرنے کے بعد عزیز و اقارب ایسے غائب ہوئے جیسے خزاں سے پہلے بہار جاتی ہے ۔ماں باپ کا اکلوتا تھا۔باپ نے وارثت میں پانچ ایکڑزمین چھوڑی تھی۔
دِینو باباپڑھنا لکھنا نہیں جانتا تھا ۔گاﺅں میں سکول کی سہولت نہیں تھی۔پور ا گاﺅں پسماندہ۔سکول نہ ہسپتال ،صفائی کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا۔گاﺅں کا شہرسے رابطہ بالکل نہیں تھا ۔۔۔غربت میں پِسا یہ گاﺅں اپنی مدد آپ کے تحت زندگی کی گاڑی کو دھکیلنے میں مصروف تھا۔گاﺅں والوں کی فصلیں کھیتوں میں پڑی پڑی گل سڑ جاتی ۔برسات کا موسم گاﺅں کے لئے کسی عذاب سے کم نہ ہوتا۔کہیں چھت گِری ہے تو کہیںکسی کا صحن دریا کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔۔کہیںدیوار گِری ہے تو کہیں کسی غریب کی کچی بیٹھک بیٹھ جاتی۔
دِینو ہر کسی کے کام آتا۔۔جذبہ انسانیت اُس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔یہ بھی برسات کا موسم تھا ۔بارش تھم گئی تھی ،عورتیں بالٹیاں ،پراتیں لے کر اپنے اپنے گھرکے صحن سے بارش پانی نکال رہی تھیں کہ ایک دَم شور اُٹھا۔شرفو ۔۔۔۔شرفو کا مکان گِر گیا ہے ۔۔چیخ و پکار ۔۔۔بچاﺅ ۔۔۔بچاﺅ ۔۔۔کی آوازیں زور پکڑ گئیں ۔
دِینو اپنے گھر سے دھوتی باندھے ،بدن کو بنیان سے ڈھانپے ہوئے باہر کی طرف بھاگااور شرفو کے گھر بارشی پانی میں چھماچھم کرتے پہنچ گیا ۔وہاں گاﺅں والوں کا ہجوم جمع تھا ۔ شرفو ،اُس کی بیوی اور اُس کاکم سن بیٹا مکان گرتے ہی ہلاک ہو گئے اور صرف جوان سالہ شرفو کی بیٹی بختوبمشکل ملبے تلے سے زندہ سلامت بچ نکلی۔۔۔
۔ایک قیا مت تھی جو اُس کے گھر ٹوٹی تھی۔روتے دھوتے وقت سرک گیااور گاﺅں والوں کی رضا مندی سے بختو کو دیِنو کے نکاح میں دے دیا گیا۔ دِینو اور بختومثالی میاں بیوی ثابت ہوئے۔دِینو کی طرح بختو بھی اَن پڑھ تھی لیکن حسن و جمال کی ملکہ تھی۔میک اپ نام کی کوئی چیز نہیں تھی پھر بھی وہ چٹی گوری تھی ۔قدرتی حُسن میں پری لگتی تھی۔
زندگی کے مہ و سال گزرتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے اُن کے آنگن میں پھول کھلا دئیے۔سلیمان اور کامران کی صورت میں دو پھول اُن کے آنگن میں آگئے تھے۔دن گزرتے رہے اور سلیمان اور کامران بچپن سے لڑکپن سے ہوتے جوانی کی دہلیز پہ قدم جمانے لگے۔دَینو اور بختو کے بالوں میں چاندی اُترنے لگی تھیں اور ہڈیاں کمزور ہونے لگی ۔بڑھاپا سر چڑھ کر بولنے لگا۔۔۔
کئی بہاریں آئی اور لوٹ گئیں ۔ساون رُت آتی تو دِل کے تار بج اُٹھتے ۔یہ بھی اِنہی برساتی دِنوں کی بات ہے ۔الیکشن سر پہ آئے تو سیاسی لیڈروں نے اس پسماندہ گاﺅں کی طرف رُخ کیا۔۔۔کھوکھلے وعدے ہوئے ،جھوٹ پہ جھوٹ بولے گئے۔۔۔اپنے مفاد کے لئے ہر حد سے گزرنے کے اعلان ہوئے ۔دیہاتیوں کے دِلوں سے کھیلا گیا ۔۔۔لیکن ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر نے صداقت دکھائی۔گاﺅں میں پکی نالیاں ،گیس ،بجلی اور گاﺅں سے شہر تک پکی سڑک کی اُمید دلائی اور پھر الیکشن کے بعد یہ وعدہ وفا ہوا ۔گاﺅں کو شہر کے ساتھ ملایا گیا۔۔پکی سڑک بن گئی۔گاﺅں میں بجلی ،گیس آ گئی ،پکی نالیاں بن گئیں ۔گاﺅں کی قسمت بدل گئی ۔تبدیلی آگئی ۔۔۔گاﺅں والوں کی منڈیوں تک رسائی ہو گئی تو لوگوں کے دِل تنگ ہو نے لگے ۔۔۔زبان پہ شکوے ،دِلوں میں نفرتیں آئیں ۔اِس ماحول کا اثر گاﺅں کے ساتھ ساتھ دِینو کے گھر پلتے سلیمان اور کامران پر بھی ہونے لگا۔۔۔
گاﺅں ترقی کی طرف گامزن ہو گیا۔اونچے اونچے محل تعمیر ہونے لگے ۔گیٹ بڑے بڑے بننے لگے تو دِل کے دروازے چھوٹے ہو گئے ۔۔محبتیں ناپید ہو تی گئیں ۔گاﺅں میں جرائم شروع ہو گئے ۔۔۔گاﺅں میں سکول ،ہسپتال بن گئے۔ہر سہولت میسّر ہونے لگی ۔
دِینو نے سلیمان اور کامران کو سکول داخل کروایا۔وہ گاﺅں کے ماحول سے نکل کر شہر میں کالج یونیورسٹی تک پہنچ گئے ۔اب وہ جوان ہو گئے تھے اور دِینو اور بختو بڑھاپے میں جا پہنچے تھے اور پھر ایک شام قدرت خداوندی کی طرف سے بختو کا بلاوا آگیا اور دِینو ۔۔۔پھر سے تنہا ہو گیا۔۔
سیانے سچ ہی کہتے ہیں کہ جب بڑھاپا آتا ہے تو بیوی ہی شوہر کا سہارا ہوتی ہے ،دُکھ سکھ کی ساتھی ،دِینو ،بختو کو یاد کرکے پہروں روتا۔۔۔گھر کا صحن ویران اور درودیوار وحشت زدہ ہوگئے ۔۔۔وہ گھر جہاں خوشیاں تھیں ،مسکراہٹیں تھیں کانٹنے کو آتا۔خوشیاں لوٹ گئی تھیں،اب صرف اُداسی ،مایوسی کے سائے منڈلاتے تھے ۔۔۔۔وحشت زدہ گھر تھا اور دِینو ۔۔۔۔۔دونوں بیٹے ماں کے مرنے پہ آئے تھے اور ماں کے لاشے کو کندھے تو آکر دئیے اور پھر ایسے شہر کی طرف گئے کہ پھر گاﺅں کا رُخ تک نہ کیا۔۔۔
دینو ان کے سروں پہ سہرے سجانے کے خواب دیکھ رہا تھا اور سلیمان اور کامران کچھ اور سو چ رہے تھے۔ دونوں بھائیوں نے کورٹ میرج کرکے اپنے اپنے گھر شہر میں بسا لئے اور باپ کو بھول گئے ۔اُس باپ کو جس نے گھر کے کچے صحن میں انگلی پکڑ کر پاﺅں پاﺅں چلنا سیکھایا تھا۔۔۔
بختو کو فوت ہوئے دو سال ہو گئے تھے اور یہ دوسال کس کرّب ،درد،مشکلات میں گزرے ،یہ تو کوئی دِینو بابا سے پوچھے۔۔۔دِینو اب دِینو بابا ہو گیا تھا۔۔۔
اور پھر دونوں بیٹوں کا رابطہ مکمل طور پر ختم ہو گیا ۔
دِینو صبح سے شام تک گاﺅں کی اُس پکی سڑک پہ بیٹھتا ہے ۔ وہ پکی سڑک کو ہاتھوں سے کھرچتارہتا ہے اور سوچوں کی وادی میں گم ہو جاتا ہے ۔دِینو سوچتا ہے ۔۔۔کاش ۔۔۔یہ سڑک نہ بنتی تو میرے بیٹے میرے پاس ہوتے ۔۔۔یہ سڑک ہی میری دُشمن ہے جس نے میرے لخت جگر چھین لئے ہیں۔۔۔وہ روز جیتا ہے روز مرتا ہے ۔۔۔بس ان حسرتوں میں زندہ ہے کہ بیٹے واپس آکر اُس کے لاشے کو کندھا تو دے سکیں ۔۔۔دو مٹھی مٹی اُس کی قبر پہ ڈال سکیں۔۔۔
فیس بک کمینٹ