گرد آلود دھند میں لپٹی ہوئی سرد ہوا اس کے وجود کو شل کررہی تھی،اسے اپنے زندہ ہونے کا احساس سینے کےاندر جلتے بجھتے دل کی دھڑکن سے ہورہا تھا ،بے بس انسان ،پنجرے میں قیدی پنچھی کی طرح ہوتا ہے۔۔۔۔اسے یہ احساس اس کے نومولود نے دلایا تھا،جس کا پیدائشی نقص اس کے دل کے لیےامتحان بن گیا تھا۔۔۔عالم جان ۔۔۔یہ نام رکھا تھا اس نے اپنے اس عجیب وغریب بیٹے کا،جس کا دل سینے سے باہر تھا۔۔۔سینے سے باہر دل بھی کبھی ہوتا ہے ۔۔۔ایک محنت کش کے پاس تو صرف پیٹ ہوتا ہے ،وہی اس کا دل ،وہی دماغ بھی، اور یہ سب کچھ بھی مفلسی کی دیوار سے ڈھکا ہوا، سینے سے باہر دل کا سوچ سوچ کر اسے پہلی بار محسوس ہوا کہ اس کا دماغ پیٹ سے کچھ اونچائی پر واقع ہے۔۔علاج معالجہ کیا ہوتا ہے ،اولاد کا دکھ کسے کہتے ہیں ،اسے ان دنوں میں احساس کی آگ میں جلنے سے پتہ چلا تھا،اسں کےدل نے پہلی بار کوئی درد محسوس کیا تھا۔۔اور درد بھی ایسا درد جو کسی پہلو چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا تھا ۔۔۔اس بے حس کر دینے والی سردی میں بچوں کے ہسپتال کے باہر ایک بوڑھے درخت نے اسے پناہ دی ۔۔تین دن سے نئےڈاکٹرز ہڑتال منا رہے تھے ، اور پرانے مسیحا نوٹ بنانے میں مصروف تھے ،کوئی بڑا کوئی چھوٹا ،کوئی نیا کوئی پرانا حکیم ،ڈاکڑ ،سرجن ، نرس تو کیا وارڈ بوائے بھی ،اس کے دل کی فریاد سننے کے لیے تیار نہیں تھا، بس سب دعا کی تسلی پہ اسے خشک کاغذ کی پرچیوں پہ ٹرخا رہے تھے،سرخ زرد اور سبز رنگ کی روشنیوں اور ایمبولینس کی آہ وبکا میں اس نے ان مسیحاوں کے چہروں پہ بے حسی لکھا ہوا با آسانی دیکھا تھا۔۔ بظاہر جن کے سینوں کے اندر دل تھے۔۔اس کی تمام زندگی ان پانچ دنوں میں ڈسپنسری اور دوا فروشوں کی منتیں کرنے تک سمٹ آئی تھی ۔۔وہ اپنے نیم زندہ ڈھانچے کو اسی محنت کش زندگی میں پروان چڑھانے کے لیے بے تاب تھا جس میں اس کے اپنے دل نے دھڑکنا سیکھا تھا۔۔یہ زندگی جیسی بھی تھی مگر دل والی تھی ۔۔دل والی سے اسے اپنے بیوی کا خیال آگیا جو عالم جان کے جنم دن سے بیمار پڑی تھی۔۔بھوک نے اس کے دماغ کو متاثر کیا تھا مگر دل تو دھڑکتا تھا۔۔ہر خوشی ،ہر غمی میں وہ اس کا ساتھ دیتی ہوئی دل پہ ہاتھ رکھ کر کہتی تھی "صابر حسین جب تک یہ دل دھڑکتا ہے تب تک جسم کے سارے پرزے ساتھ دیتے ہیں یہ دھمک نہیں تو زندگی نہیں ۔۔۔تُو حوصلہ نہ ہارا کر مگر اب خود کیسے بے جان ہوکر کھاٹ سے لگ بیٹھی تھی۔۔جب اس نے بے چہرہ سے لوتھڑا نما اپنے بچے عالم جان میں جان تلاش کرنے کی کوشش کی تو اس کا اپنا دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ سینے سے باہر ہی آجائے گا مگر جب بچے کے نازک وجود کو اس نے اپنے کھردرے ہاتھوں سے اٹھانے کی سعی کی تو اس کا اپنا وجود لرز گیا۔۔۔اس کے دل کی دھڑکن اس کے آنسووں کے سارے بندھن ایک دھمک سے توڑ گئ ۔۔۔اس کے بچے کا دل دھڑک تو رہا تھا مگر سینے سے باہر۔۔یہ کیسے زندہ رہے گا۔۔۔۔یہ جیئےگا کیسے ؟ وہ زارو قطار رو پڑا۔ اب وہ بڑی چمچماتی گاڑیوں سے اترتے ڈاکڑوں کے چہروں پہ دھڑکتا ہوا دل تلاش کررہا تھا۔۔۔۔وہ سوچ سوچ کر سڑک کے اس پار فٹ پاتھ پہ پرائویٹ کلینکوں کی قطار پہ لگے بورڈ پڑھتا رہا پھر اپنی اوقات دیکھ کے دل سنبھالنے کے لیے بچوں کے ہسپتال کے آہنی گیٹ کو سہارا سمجھ کر روشنیوں کو تکنے لگا۔۔ اچانک شور اٹھا۔۔۔۔ملک کے کسی بڑے صاحب نےہسپتال کا دورہ کرنا تھا ۔۔بڑا صاحب آنےوالاہے، ۔۔ راستہ صاف کرو۔۔۔۔ڈیوٹی پہ موجود موجود پولیس والا اس کو مشکوک سمجھتے ہوئے بڑبڑاتے ہوئے،اس کے پاس آیا اور روایتی کرختگی سے اسے یہاں سے دفع ہو جانے کا حکم دینے لگا۔۔۔صابر کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا۔۔۔اس نے ساری کہانی اسے صرف بیس لفظوں میں سنا ڈالی ۔۔۔اور ہمت بھرے لہجے میں اپنا مدعا اس بڑے صاحب ،اس کے ساتھی حکمران ٹولے اور،ہم نواؤں کو بتانے کی اجازت چاہی ۔۔پولیس والا دل کھول کر ہنسا اور سگریٹ سلگا کر اس کے نزدیک آکر پراسرار لہجے میں بولا "صابر حسین تو ان سب کو اپنی اپنی گاڑیوں سے باہر نکلتا ہوا دیکھیو۔۔۔ بہت غور سے ۔۔۔آنکھیں کھول کے۔۔۔پھر میں تجھ سے پوچھوں گا۔۔۔۔”وہ کش لگاتا ہوا پھر سےاسے بیچ منجدھار میں چھوڑ گیا ۔۔۔ چمچماتی گاڑیوں کی آمد شروع ہوئی ،سڑکوں کے دل دہلنے لگے۔۔۔ خنک ہوائیں اس کے امید بھرے آنسوئوں سے گرم ہونے لگیں ۔۔۔اب اس کے لئے بچے کے علاج کا خرچہ اٹھانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔۔۔وہ ان گاڑیوں کی تعداد سے ان کے مالکان کی دریا دلی کا پیمانہ ماپنے بیٹھ گیا۔۔۔کوئی تو صاحب ،دل والا اس کی مدد کرے بھلا ہو سبھی کا۔۔اس کا دل مزدور سے بھکاری بن چکا تھا۔۔۔اس کے کھردرے میلے ہاتھ پھیل گئے اور زبان سے فقیرانہ صدائیں بلند ہونے لگیں ،اسے محسوس ہوا جیسے بڑے صاجب کی گاڑی اسی کو دیکھ کہ آہستہ ہوگئ ہو۔۔ دل اب بھی زور زور سے دھڑک رہا تھا دکھ کا آتش فشاں پھٹنے اور ابلنے کو تھا۔۔۔مگر توقع کے برعکس ان کی قہر آلود نظریں اس کا گھیراؤ کرنے لگیں ۔۔۔سکیورٹی سکیورٹی کی بلند ہوتی ہوئی آوازوں میں اس نے پولیس والے کی طرف گھبرا کر نظر ڈالی ۔۔۔پھر پلٹ کر ان سب کو دیکھا۔ بہت غور سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ایک ایک کو اوپر سے نیچے تک دیکھنے کی ہمت کی ،وہ حیران تھا۔۔سب گاڑیوں سے اترنے والے اور تیزی سے اس کی طرف بڑھنے والوں کے دل بھی سینے سے باہر تھے ۔ خنک ہوائیں اس کے وجود کو خشک پتے کی طرح شجر امید چھوڑنے پہ مجبور کرنے لگیں ۔۔ وہ شل ہو کر زمین پہ گر گیا ۔۔۔اس نے کمزور ہوتی ہوئی سانسوں میں اپنا دل ٹٹولا تو اسے دھڑکن ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔پولیس والا سرد دھواں اس کے کان میں اگلتا ہوا سرگوشی کررہا تھا”ان سب کے دل بھی سینے سے باہر ہیں ،یہ بھی تو زندہ ہیں صابر حسین فکر نہ کر۔۔۔آنکھیں کھول اٹھ جا ،دل سنبھال صابر۔۔۔کیوں میری نوکری کے پیچھے پڑا ہے۔۔۔”مگر صابر کا دل دھڑکنا بھول چکا تھا۔۔
فیس بک کمینٹ