کارل مار کس چند عشرے قبل امریکہ کی انگیخت اور "مالی و اسلحی امداد” کی بنا پر پاکستان کے سیاسی اور مذہبی بنیاد پرستوں اور اصطبلشمنٹ کے بقراطوں کا نا پسندیدہ ترین شخص تھا اور ملک کے طول و عرض میں اس پر مسلسل تبرا کیاجاتا تھا۔ اس دور کی نوجوان نسل خاص طور پر طالبعلموں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اسلامی جمعیت طلباء کی مجاہدانہ کوششوں کے باعث اس کے نام سے ناواقف رہا ہو۔ اپنے عہد طالبعلمی میں اسی تنظیم کے مبلغوں کے توسط سے کارل مارکس کے نام سے ہمیں بھی شناسائی حاصل ہوئی۔ اس کے افکار سے بھی اسی تنظیم کے کارکنوں کو ایک مخصوص انداز کی "آگہی” حاصل تھی جو ہم جیسے عامیوں تک بڑی محبت اور مہارت سے پہنچائی جاتی تھی۔ ان مبلغین کی معرفت اس سلسلے میں ہمیں اس دور میں صرف دو باتیں معلوم ہوئیں
1۔ یہ جرمن یہودی شخص مزدوروں کے حقوق اور ان کے عالمی اتحاد کی بات کیا کرتا تھا اور اس کے افکار کو ماننے والے کمیونسٹ یا سوشلسٹ کہلاتے تھے۔
2۔ وہ اور اس کے ماننے والے خدا، رسول کے منکر تھےاس لئے ان کے مفسدانہ اور غیر اسلامی افکار سے سب کو بچنا چاہئے۔
ہمارے لئے اس سب میں الجھن کی بات یہ تھی کہ ان مذکورہ بالا دونوں باتوں میں ہم کوئی ربط تلاش نہیں کر پائے تھے، مبلغین سے سوال کیا تو وہ بھی کوئی تشفی بخش جواب نہ دے سکے۔۔۔ میں اس وقت ابھی میٹرک کے کلاس میں داخل ہوا تھا اور میرے ایک مشفق استاد سکول لائبریری کے انچارج بھی تھے(بہت بعد میں پتہ چلا کہ وہ جماعت اسلامی کے باقاعدہ اور مستقل رکن تھے) اور انہوں نے میرا شوق مطالعہ دیکھتے ہوئے الماریوں کی جھاڑ پونچھ کرنے اور کتابوں کی مناسب ترتیب قائم رکھنے کیلئے سکول لائبریری کی چابی مجھے دے رکھی تھی۔۔۔ میں نے ان سے بھی سوال کیا تو انہوں نے خود تو جواب دینے سے احتراز کیا لیکن ایک اور صاحب سے ملنے کو کہا جو ایک دکاندار تھے اور جماعت اسلامی کے مقامی امیر تھے۔ وہ ایک نیم خواندہ سے شخص تھے اسلئے شاید میرا سوال تو ان کی سمجھ میں نہیں آیا البتہ انہوں نے ایک بہت ضخیم کتاب میرے حوالے کردی یہ جماعت کے ترجمان رسالہ "چراغ راہ” کا سوشلزم نمبر تھا(جوبعد میں تلاش کے باوجود مجھے نہیں مل سکا) اس رسالے کے اکثر مندرجات کی تفصیل تو مجھے یاد نہیں اور کئی باتیں اس عمر اور اس ذہنی پس منظر میں مجھے سمجھ میں آ بھی نہیں سکتی تھیں لیکن اس کے مطالعے سے اتنا ضرور پتہ چلا کہ دنیا کا ایک بڑا ملک سویت یونین روس ہے جس میں مارکس کے افکار سے متاثر ہوکر ایک انقلاب (1917 میں) آیا تھا جس میں روس کے شریف اور پڑھے لکھے لوگوں پر بہت ظلم ڈھائے گئے اور معصوم لوگوں کا بہت خون بہا۔ ایک سکول ماسٹر لینن عوس کے جاہل مزدوروں اور کسانوں کا لیڈر بن گیا تھا اور س نے انہیں گمراہ کرکے بادشاہ سے بغاوت پر اکسایا۔ لیکن لینن تو خیر پھر بھی پڑھا لکھا شخص تھا، اس کے بعد ایک لوہار سٹالن سویت یونین کا سربراہ بن بیٹھا اور پھر اس نے معصوم روسیوں پر ہی ظلم و ستم کے پہاڑ نہیں توڑے بلکہ خود اپنے ساتھیوں کو بھی چن چن کر قتل کیا اور قید خانوں میں ڈالا۔۔۔
سٹالن کے مرنے کے بعد بھی "مہذب دنیا” کے خلاف ظلم اور سازشوں کا سلسلہ جاری رہا اور اب بھی اس ملک کے کافر اور ظالم حکمران مہذب انسانیت کے خلاف سازشوں میں لگے ہوئے ہیں روس کے مظلوم لوگ ایک بڑے قید خانے میں قید زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں اور مہذب دنیا کا فرض ہے کہ ان کی نجات کے لئے اور دنیا کے باقی ملکوں کو اس فتنے سے نجات دلانے کیلئے متحد ہو جائے۔
چراغ راہ کے اس شمارے کے مضامین ماخوذ یا ترجمہ شدہ تھے ان میں سے کئی پرجوش مضامین میں روسی ترکستان کی ریاستوں کو موضوع بتاتے ہوئے انقلاب روس کے دوران اور اس کے بعد وہاں کے مسلمانوں کی طرف سے کمیونسٹوں کے خلاف علم جہاد بلند کرکے ان کی قربانیوں کا خاص طور پر تذکرہ کیا گیا تھا اور کمیونسٹوں کے بہیمانہ ظلم کی لرزہ خیز داستانیں اس طرح بیان کی گئی تھیں کہ خون کھولنے لگتا تھا۔۔۔ ہر مضمون میں زور اس بات پر تھا کہ کمیونسٹوں کی سازشوں سے دنیا کو بچانا ہر "باشعور انسان” کا اولین فرض ہے۔ پاکستان میں بھی کمیونسٹوں کے ایجنٹ بھیس بدل کر قوم کو گمراہ کرنے پر لگے ہوئے ہیں اور ان سے خبردار رہنا بے حد ضروری ہے کیوں کی یہ پاکستان جیسے اسلامی نظریاتی ملک میں بھی سوشلزم نافذ کر کے اس کی "لازمی اسلامی شناخت” ختم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ عام مساوات کی بات کرتے ہیں اور ہرچیز کو مشترکہ ملکیت بنانے کی بات بھی کرتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ نعوذبااللہ سب کی زمینیں، گھر، بیویاں،اور بچے مشترکہ ملکیت ہونگے، نہ گھر کی پہچان رہے گی اور نہ خاندان اور نسل کی، یہی ان دہریوں کا عقیدہ اور عمل ہے۔۔۔ روس میں حج، روزہ اور ز کواۃ پر بھی پابندی ہے مسجدوں کو تالے لگا دیئے گئے ہیں(گویا جہاں بھی سوشلزم آیا وہاں یہی ہوگا ایسی ہی باتیں اس دور میں نچلے متوسط طبقے کے پاکستانیوں اور دنیا کے دیگر ملکوں کے لوگوں میں عام کردی گئی تھیں)۔
یہ سب پڑھ کر اور سن کر ہمارے نسل کے نوعمر ذہن شدت جذبات سے مغلوب ہو جاتے تھے لیکن مجھے پریشانی یہ بھی تھی کہ مجھے اپنے مذکورہ سوالوں کے جواب کہیں نہیں مل رہے تھے کیونکہ مزدوروں کے حقوق کی بات مسجد کے مولوی صاحب بھی کرتے تھے اور مزدور اور مزدور کی عظمت کے بارے میں رسول خدا کی حدیثیں بھی خشوع و خضوع سے سنایا کرتے تھے۔ میرا ذہن بدستور الجھا ہوا تھا کہ اگر مارکس نے بھی یہی بات کی تو یہ کفر کیسے ہوگئی؟
اسی دور میں ذوالفقار علی بھٹو کا تذکرہ عام ہوا جو صدر جنرل ایوب خان کی حکومت میں وزیر خارجہ تھے اور 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد روس کے شہر تاشقند میں ہونے والے پاک بھارت معاہدے کے بعد ایوب خان پر کشمیر کو بیچنے کا الزام لگا کر حکومت سے الگ ہوگئے تھے اور انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے اپنی ایک سیاسی جماعت بنالی تھی جسے عامتہ الناس (جن میں بھٹو اور ان کے سیاسی نظریات کوبہت مقبولیت مل رہی تھی ) پیپل کے درخت کی مناسبت سے پیپل پارٹی کہتے اور سمجھتے تھے اور صدیوں سے وہ اس درخت کی ٹھنڈی چھاوں میں پناہ لینے کے عادی تھے۔ ز یادہ تر پاکستانی شاید پہلی بار پیپلز پارٹی کی منشور کے توسط سے سوشلزم کے لفظ دے متعارف ہوئے تھے جس میں دعوا کیا گیا تھا کہ
اسلام ہمارا دین ہے۔
جمہوریت ہماری سیاست ہے۔
سوشلزم ہماری معیشت ہے۔
اس دور میں شاید پاکستان کے عام لوگوں کو خبر نہیں تھی کہ سوشلسٹ / کمیونسٹ نظریات رکھنے والی کئی سیاسی جماعتیں بہت پہلے سے ہی برصغیر پاک و ہند میں کام کر رہی تھیں، لیکن دائیں بازو کی جماعتوں (ہمیں اس وقت دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی بحث کی کوئی سمجھ نہیں تھی لیکن اس بارے میں ذہن میں کچھ سوال ضرور پیدا ہو رہے تھے) خاص طور پر جماعت اسلامی کی طرف سے بھٹو کے ان نظریات کے خلاف بہت سخت ردعمل سامنے آیا اور اخبارات میں اس کے خلاف خبروں، تبصروں، مضامین اور خصوصی ایڈیشنوں کا طوفان امڈ آیا جس پر بازاروں کے تھڑوں پر گلیوں محلوں اور گاوں کے چوپالوں میں اس سلسلے میں مبہم سی باتیں شروع ہوگئیں جن میں کچھ وضاحت اس وقت پیدا ہوئی جب بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کیا اور اسلامی مساوات کا ذکر،شروع کیا۔ (جاری ہے)
فیس بک کمینٹ