ہم اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب لاہور میں گورنر ہاؤس کے بڑے پھاٹک پر اور الحمرا کی سمت والی دیوار پر بڑے بڑے بورڈ لگے ہوں گے ”گورنر ہاؤس کرائے کے لیے خالی ہے‘‘ یہی تو خبر چھپی ہے اخبار میں۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ گورنر ہاؤس میں بڑے کاروباری اداروں کو اپنے جلسے کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ اور گورنر ہاؤس کے کمرے بھی کرا ئے پر اٹھائے جائیں گے۔ عام خاندانوں کی سیر و تفریح کے لیے اس کے دروازے پہلے ہی کھول دیے گئے ہیں۔ وہ تو عدالت نے روک دیا ورنہ اس کے دیواریں بھی توڑنے کا انتظام کر دیا گیا تھا۔ اب بھی عدالت کا امتناعی حکم ہے جس کی وجہ سے گورنر ہاؤس کی دیواریں محفوظ ہیں ورنہ آج سڑک پر چلنے والے اس عمارت کے اندر تک کا نظارہ کر رہے ہوتے۔ ہمارے ایک دوست پوچھنے لگے کہ آخر عمران خاں کی حکومت اس تاریخی عمارت کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہے؟ ہم نے کہا: عمران خاں کہتے ہیں کہ اتنی وسیع و عریض عمارتیں رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ انہیں کسی کام میں لانا چاہیے۔ مگر ہمارے دوست کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت بری طرح مالی بحران کا شکار ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ کہیں نہ کہیں سے کچھ روپے پیسے جمع کر لیے جائیں۔ اسی لیے تو نتھیا گلی کے گورنر ہاؤس کو ہوٹل بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب لاہور کے گورنر ہاؤس میں کاروباری جلسے کرنے اور اس کے کمرے کرائے پر اٹھانے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے‘ اس کا مقصد بھی اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ کچھ ”روکڑا‘‘ کما لیا جائے۔ ہم نے اس دوست کی بات کو تو مذاق جانا‘ مگر سوچا کہ بھلا مہذب قومیں کہیں اپنی تاریخی عمارتوں کا بھی یہ حشر کرتی ہیں؟ مان لیا کہ لاہور کا گورنر ہاؤس انگریزوں نے بنایا تھا۔ اور وہ اتنا قدیم بھی نہیں ہے جتنی مغلوں کی بنائی ہوئی عمارتیں‘ لیکن یہ بھی ہماری تاریخ تو ہے ناں۔ ذرا سوچیے، اس عمارت میں کون کون رہائش پذیر نہیں رہا؟ اور یہاں بیٹھ کر کیسے کیسے فیصلے نہیں کیے گئے؟ اس کے بڑے ہال میں لگی ہوئی تصویروں پر ہی ایک نظر ڈال لیجیے۔ پوری تاریخ ہمارے سامنے آ جائے گی۔ قدیم تاریخ نہ سہی جدید تاریخ ہی سہی۔ ہے تو تاریخ۔ اس کی دیکھ بھال پر آپ کا کتنا خرچ ہو جاتا ہے؟ کیا تاریخ محفوظ کرنے کے لیے آپ اتنا بھی خرچ نہیں کر سکتے؟ اگر آپ ہندوستان کی نقل کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہاں، خاص طور پر راجستھان میں، تاریخی عمارتوں میں ہوٹل بنا دئیے گئے ہیں تو جان لیجیے کہ وہ عمارتیں سرکاری نہیں ہیں۔ وہ پرانے راجواڑوں کی نجی اور ذاتی عمارتیں ہیں۔ وہ ہوٹل ان خاندانوں کی ملکیت ہیں۔ اب اگر جان کی امان پائوں تو عرض کروں کہ اس گورنر ہائوس کے ساتھ ہماری بھی کچھ یادیں وابستہ ہیں۔ یوں تو اس سے پہلے بھی اس عمارت میں جانا ہوا تھا‘ لیکن وہ ایک تاریخی دن تھا۔ ضیاء الحق کی حکومت تھی۔ ان صاحب کی حکمرانی ڈانواں ڈول ہو رہی تھی۔ کسی نے انہیں سمجھایا کہ عوام سے معلوم کیا جائے کہ ان کے نزدیک اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ یہ معلوم کرنے کے لیے اسلام آباد اور باقی صوبوں میں ان لوگوں کو جمع کیا گیا‘ جن کے بارے میں اس وقت کے حکمرانوں کا خیال تھا کہ وہ ان کی مرضی کی رائے دیں گے۔ لیکن ہوا اس کے الٹ۔ اس مقصد کے لیے لاہور کے گورنر ہاؤس میں جن لوگوں کو اکٹھا کیا گیا ان میں ہم بھی تھے۔ ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ ضیاء الحق ہم سے سخت ناراض تھے۔ اور ہمیں روزنامہ امروز کی نوکری سے نکال چکے تھے۔ لیکن اس وقت کے ڈائریکٹر اطلاعات سید فخرالدین بلے کو خدا جانے کیا سوجھی کہ ہمیں بھی بلا لیا۔ اور ہم وہاں چلے گئے۔ ہاں، ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ ان دنوں پنجاب کے گورنر عمران خاں کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے والد سجاد حسین قریشی تھے۔ تو صاحب، ہم وہاں اکٹھے ہوئے۔ خاصی بڑی تعداد تھی وہاں جمع ہونے والوں کی۔ طے یہ ہوا کہ چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں بنا دی جائیں، جو اپنی سفارشات مرتب کریں۔ ہم جس کمیٹی کا حصہ بنائے گئے اس کے سربراہ سابق خارجہ سیکرٹری میاں ارشد حسین مرحوم تھے۔ اور نذیر ناجی اور ہم ممبر تھے۔ اس کمیٹی نے وہی سفارش کی جو اسے کرنا چاہیے تھی۔ اس نے لکھ کر دیا کہ عوام کی حاکمیت بحال کی جا ئے۔ عوام کی نمائندہ حکومت قائم کی جائے۔ خیال یہ ہے کہ باقی علاقوں سے بھی ایسی ہی سفارشات آئی ہوں گی۔ اسی لیے بعد میں کچھ پتہ نہیں چلا کہ ان سفارشات کا کیا بنا۔ یہاں ایک اور بات بھی ہمیں یاد آ گئی۔ ہر سال 23 مارچ کو اسی گورنر ہاؤس میں ادیبوں، فن کاروں اور دوسرے دانشوروں کو سول ایوارڈ بھی دیئے جاتے ہیں۔ پہلے یہ ایوارڈ اسلام آباد میں صدر مملکت دیا کرتے تھے۔ لیکن چونکہ انعام حاصل کرنے والوں کی تعداد بڑھتی ہی چلی گئی تھی اس لئے طے ہوا کہ ہر صوبے کے انعام اس صوبے کے گورنر دیا کریں گے۔ ہم نے حسن کارکردگی کا ایوارڈ اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر سے، اور ستارۂ امتیاز گورنر رفیق رجوانہ سے حاصل کیا۔
خیر یہ ذاتی باتیں خواہ مخواہ بیچ میں آ گئیں۔ ہم تو یہ کہہ رہے تھے کہ خدا کے لیے اس گورنر ہاؤس کو اسی شکل و صورت میں ر ہنے دیجیے۔ بچوں اور ان کے ماں باپ کو اگر اس عمارت کی سیر کرانا ہے تو ضرور کرائیے۔ یہ کام میاں اظہر نے بھی کیا تھا، جب وہ پنجاب کے گورنر تھے۔ کراچی میں ادب فیسٹیول کے لیے گورنر ہاؤس کھولا گیا۔ کسی حد تک وہ بھی برداشت کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کسی بھی گورنر ہاؤس کو تجارتی اور کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنا پوری قوم کی توہین ہے۔ عمران خاں نے بڑے طمطراق سے وزیر اعظم ہاؤس کو بھی تو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا تھا۔ لاکھوں روپیہ خرچ کرکے اس کے لیے ایک بھاری بھرکم جلسہ بھی کیا گیا۔ اس میں شرکت کے لئے امریکہ تک سے ماہرین تعلیم کو بلایا گیا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ جب عرب مہمان آئے تو اسی ایوان وزیر اعظم میں انہیں ٹھہرایا گیا۔ اسلام آباد میں اور کوئی ایسی عمارت ہی نہیں تھی کہ ان معزز مہمانوں کو ٹھہرایا جاتا۔ اب آپ ذرا یاد کیجیے۔ اس کے بعد کبھی وزیر اعظم ہاؤس کے بارے میں کوئی خبر آئی؟ خاموشی ہے ہر جانب۔ اور جو بڑی بڑی قیمتی گاڑیاں نیلام کی گئی تھیں؟ وہ تو نیلام ہو گئیں۔ لیکن پھر معزز مہمانوں کے لیے کرائے پر گاڑیاں منگوائی گئیں۔ اسی لیے تو کہتے ہیں‘ جلدی میں فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔ ہمارے استاد کہا کرتے تھے ”جو انسان جلدی میں رہتا ہے وہ اپنے دماغ سے نہیں، پیروں سے سوچتا ہے‘‘۔ آخر آپ کو جلدی کاہے کی ہے؟ آپ کو تو پانچ سال پورے کرنا ہیں۔ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ آپ پانچ سال سے پہلے ہی چلے جائیں۔ اس لئے سوچ سمجھ کر فیصلے کیجیے۔ معاشی حالات واقعی اچھے نہیں ہیں۔ وزیر خزانہ قوم کو خوش خبری سنا چکے ہیں کہ مہنگائی اور بھی بڑھے گی۔ اتنی بڑھے گی کہ چیخیں نکل جائیں گی۔ اب موسم بھی ہمارے ساتھ شرارت کرنے لگا ہے۔ اتنی بارشیں ہوئی ہیں کہ گندم کی فصل نمی کا شکار ہو گئی ہے۔ زراعت کے ماہر ڈرا رہے ہیں کہ اس سال گندم کی فصل بہت کم ہو گی۔ ادھر عام آدمی پہلے ہی چیخ رہا ہے کہ گیس اور بجلی کے بلوں نے اس کی کمر توڑ دی ہے۔ ہمارے گھر گیس کا بل بارہ ہزار آیا ہے۔ اور ہمارے گھر میں گیس کا ہیٹر بھی استعمال نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے گھر میں گیس کا ہیٹر لگانے کی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔ کہتے ہیں‘ زیادہ بلوں کی رقم واپس کر دی جا ئے گی۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ وعدہ بھی پورا ہوتا ہے یا نہیں۔ اللہ کے لیے، گورنر ہاؤس کو کرائے پر دینے کا تماشہ بھول جائیے۔ اس سے عام آدمی کا کوئی بھلا نہیں ہو گا۔ عوام کی بھلائی کا سوچیے۔ گھر چلانے والی خواتین پریشان ہیں کہ پہلے سبزی ترکاری خریدتی تھیں تو ہری مرچیں اور دھنیہ مفت مل جاتا تھا۔ اب ہری مرچ ساڑھے تین سو روپے کلو ہے۔ مہنگائی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اور ہماری حکومت کی ترجیح گورنر ہاؤس کو کرایے پر چڑھانا ہے۔ اللہ خیر کرے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ