انتہا پسندی اور دہشتگردی دنیا کو جس طرح اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اس کا تازہ ترین مظاہرہ ہم نے نیوزی لینڈ میں 2 مساجد پر ہونے والے خونی حملے میں دیکھا جس میں اب تک 50افراد ختم ہوچکے ہیں اور کئی جاں کنی کے عالم میں ہیں ۔ اس نوعیت کے حملے اب نئے نہیں رہے اور ان کا دائرہ دنیا کے تمام براعظموں تک پھیل چکا ہے۔ ایک طرف مذہبی یا نسلی بنیادوں پر نفرت کا یہ سلسلہ ہے اور دوسری طرف ان لوگوں کو خاموش کرنے کی وارداتیں ہیں جو اپنے ملکوں میں اس نوعیت کی مذہبی اور نسلی انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ۔
یہ وہ لکھنے والے ہیں جنہوں نے نفرت ، نا انصافی اور تعصبات سے لڑنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ ان میں سے بہت سے اس جنگ میں لڑتے ہوئے جان ہار جاتے ہیں ۔ ہم پروین رحمان ، ولی خان بابر اورکئی دوسروں کو کیسے بھول سکتے ہیں جنہوں نے سماجی نا انصافی اور دہشتگردی کے خلاف لڑائی میں مظلوموں کا ساتھ دیا اور ظالموں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ اسی طرح کا ایک نام ہندوستان کی ریاست کرنا ٹک سے ابھرا ۔ یہ کنٹر زبان میں لکھنے والی شعلہ بیاں صحافی گوری لینکش کا ہے ، جنھیں 5ستمبر 2017ء کو ان کے گھر کے دروازے پر گولیاں برسا کر ختم کیا گیا ۔ وہ کرناٹکی میں لکھتی تھیں اور بنگلور کے ایک ہفت روزہ کی مدیر تھیں ۔ ہم تو اپنی کئی قومی زبانوں کے نام سے بھی واقف نہیں، ایسے میں ہم کرناٹک کی زبان کُنٹر کے بارے میں بھلا کیا جانیں گے ۔
گوری لینکش سے میری جان کاری ساجد رشید کے سہ ماہی ، ’’نیا ورق‘‘ کے ذریعے ہوئی ۔ ساجد رشید اپنی وفات سے کچھ ہی پہلے کراچی آئے ہوئے تھے اور مجھ سے ملنے میرے غریب خانے پر تشریف لائے تھے ۔ وہ ایک دبنگ اور دلیر افسانہ نگار اور مدیر تھے ۔ قلم کی حرمت ان کے لیے بہت اہم تھی ، اسی لیے بعض حلقوں میں وہ کچھ بہت پسندیدہ نہ تھے ۔ ان سے آخری ملاقات دلی کے ایک سیمینار میں ہوئی اور پھر خبر آئی کہ وہ رخصت ہوگئے۔ دکھ ہوا کہ اردو کا ایک اچھا ادبی رسالہ ختم ہوا لیکن کچھ ہی دنوں بعد یہ خوشگوار حیرت ہوئی کہ ان کے بیٹے شاداب رشید نے ’’نیا ورق‘‘ کی ادارت سنبھال لی ہے ۔ پاکستان اور ہندوستان کے بیچ تناؤ اور تنازعات کے باوجود ’’ نیا ورق ‘‘ پابندی سے ملتا رہتا ہے اور اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ شاداب نے اپنی ادبی وراثت کو خوب نبھایا ہے ۔
انھوں نے اپنے رسالے کا ایک شمارہ گوری لنکیش کی یاد میں نکالا ہے جس میں خاصے کی چیز ٹیسٹا اسٹلواد کی وہ تحریر ہے جو انھوں نے گوری کی یاد میں لکھی ۔ ٹیسٹا کے نام نے ہمارے یہاں بیشتر لوگ واقف نہیں لیکن وہ ہندوستان میں آزادیٔ اظہار کے لیے اپنے قلم اور اپنے رسالے ’’کمیونل کومباٹ‘‘ کے لیے بہت مشہور ہیں۔ یہ رسالہ وہ اور ان کے شوہر جاوید آنند نکالتے ہیں اور ان دونوں کے دوست ہر وقت ان کی زندگی کی دعا کرتے ہیں۔ انتہا پسندوں اور مذہبی تعصب سے سلگتے ہوئے لوگوں کے لیے ٹیسٹا اور جاوید کا رسالہ ایک ناپسندیدہ عنصر ہے ۔
گوری ایک نڈر اور بے باک لکھنے والی تھیں ۔ اپنے قتل ہونے سے چند ہی دنوں پہلے انھوں نے لکھا تھا ’’بدقسمتی سے آج ہر وہ شخص جو حقوقِ انسانی کی حمایت کرے اور فرضی پولیس مقابلوں کے خلاف بولے، وہ ماؤ نواز قرار دے دیا جاتا ہے ۔ ساتھ ہی ہندو توا کی سیاست اور ذات پات کے نظام پر ، جوکہ ’’ہندو دھرم‘‘ کا لازمی جزو ہے ، میری تنقید پر میرے نقاد مجھے ’’ہندو دشمن ‘‘ قرار دینے سے نہیں چوکتے ۔ لیکن میں اسے اپنا آئینی فرض سمجھتی ہوں کہ تھوڑا بہت جس طرح بھی ہوسکے ، باساونّا اور ڈاکٹر امبیڈ کرکی ایک مساوی سماج کی تشکیل کی جدوجہد کو جاری رکھوں ۔‘‘
گوری سے جب ان کے دوست ’’احتیاط‘‘ کرنے کو کہتے تو وہ ہنستے ہوئے ان سے پوچھتیں کہ ’’احتیاط کیسے کی جائے ؟‘‘ ۔ ان کی بات بھی درست تھی کہ جب آپ سچ لکھنا چاہتی ہوں، آپ کو اپنے اردگرد پھیلے ہوئے مظلوموں اور بے کس لوگوں سے ہمدردی ہو ، آپ ان کے لیے مرکزی سرکار سے لڑجاتی ہوں، اپنے رسالے کے لیے کسی قسم کا سرکاری اشتہار نہ لیتی ہوں کہ اس طرح آپ پر دباؤ بنایا جاسکے گا۔ وہ ہر طرح کی فرقہ پرستی اور خاص طور سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پیدا کیے جانے والے تنازعات کو ہندوستانی جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی تھیں ۔
اسی طرح جن لوگوں پر وہ کڑی تنقید کرتی تھیں ، وہ انھیں اپنی راہ کا ایک ایسا کانٹا سمجھتے تھے جسے نکال دینا چاہیے تھا ۔ 5ستمبر 2017ء کی رات پونے آٹھ بجے جب وہ اپنے دفتر سے گھر پہنچیں تو ان کا تعاقب کرنے والے دو موٹر سائیکل سواروں نے 3گولیوں سے ان کی زندگی کا چراغ گل کردیا ۔ ہمارے یہاں بھی گھر کی دہلیز پر مارے جانے والوں کی تعداد کچھ کم نہیں ، ان میں سے ذوالفقار بھٹو کے بیٹے مرتضیٰ بھٹو بالکل سامنے کی مثال ہیں ۔
گوری ایک کثیر المشرب ، سیکولر اور کثیر الثقافتی ہندوستان پر ایمان رکھتی تھیں ۔ وہ 1962ء میں پیدا ہوئیں ، وہ اس زمانے میں بڑی ہوئیں جب ہندوستان آہستہ آہستہ انتہا پسندی اور مختلف تعصبات کا شکار ہو رہا تھا ۔ ان کے والد ایک کثیر المشرف انسان تھے ، ان کے نزدیک ذات پات اور دین دھرم میں کوئی فرق نہیں تھا ، وہ ایک مشہور ادیب تھے۔ ایک سوشلسٹ اور روشن خیال ، گوری ان کے سائے میں بڑی ہوئیں اور جب انھوں نے قلم سنبھالا تو وہ بھی انتہا پسندی کے خلاف ڈٹ گئیں اور اس کا نتیجہ وہی نکلا جس کا ان کے ساتھیوں اور پڑھنے والوں کو ڈر تھا ۔
قتل کے چھ مہینے بعد تک ان کو مارنے والوں کا کوئی پتہ نہ چل سکا لیکن بنگلور کی پولیس ان کے قاتلوں اور اس قتل کے سہولت کاروں کی کھوج میں تھی اور اب کچھ ملزم پکڑے گئے ہیں ۔ پولیس کا خیال ہے کہ یہ لوگ دائیں بازو کے اس نیٹ ورک سے تعلق رکھتے ہیں جس کا کوئی نام نہیں اور جو پوری ریاست میں پھیلا ہوا ہے ۔ ان لوگوں کا کام ان لوگوں کو قتل کرنا ہوتا ہے جس کی طرف نیٹ ورک کے کرتا دھرتا اشارہ کریں ۔ معلوم یہ ہوا کہ گوری کو نشانہ بنانے والے ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے ۔ انھیں یوٹیوب کی وہ فلمیں دکھائی گئی تھیں جن میں گوری مختلف موقعوں پر تقریریں کر رہی تھیں ۔ یہ تقریریں نسلی اور مذہبی منافرت کے خلاف تھیں اور قاتلوں کے لیے ناپسندیدہ تھیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی معلومات کے مطابق اس قتل کا معاوضہ انھیں دس ہزار روپے دیا گیا تھا ۔
گوری کا قتل ان تمام لوگوں کے لیے بڑا صدمہ ہے جو اس کی تحریروں کا انتظار کرتے تھے اور اپنی زندگی کو اس کے بتائے ہوئے اصولوں پر گزارنے کی کوششیں کرتے تھے ۔ نقصان کا یہی احساس تھا کہ جب اس کے قتل کے ایک ہفتے بعد اس کی یاد میں ایک جلوس نکالا گیا تو اس میں ادیب ، طلباء ، ایکٹی وسٹ ، سماج کے حاشیوں پر زندگی گزارنے والے دلت ، آدی واسی ، کھسرے ، عورتیں ، رکشہ کھینچنے والے ، بے زمین کسان، مسلمان اور عیسائی سب ہی شریک تھے ۔ ان کی تعداد 20 ہزار سے زیادہ تھی ۔ انھوں نے ’’میں گوری ہوں ‘‘ کے پوسٹر اٹھا رکھے تھے ۔ اس طرح کے بڑے بڑے جلوس ہندوستان کے کئی شہروں میں نکلے ۔
صحافیوں کی حفاظت کے لیے بننے والی کمیٹی 1992ء سے کام کررہی ہے۔ وہ 35صحافیوں کے قتل کی تحقیقات کررہی ہے جن میں سے صرف 2ہلاک شدگان کے قتل کا معمہ حل ہوا ہے ۔ اب گوری کے قتل نے اس کمیٹی کو بہ طور خاص متحرک کیا ہے ۔ امکان ہے کہ کمیٹی کے لیے کام کرنے والے جو بڑی حد تک قاتلوں اور سہولت کاروں تک پہنچ گئے ہیں ، وہ ایک نہایت اہم صحافی کے قتل کا راز افشا کرسکیں گے ۔
گوری کی بہن کویتا لینکش جو ادیب اور شاعر ہیں ، ذاتی غم سے باہر نکلیں تو انھوں نے اپنی بہن کے لیے ایک نظم لکھی جس کی چند سطریں آپ کی نذر ہیں :
وہ پُرجوش باتیں کرتی ہیں ، وہ پُرزور لہجے میں بولتی ہیں / بار بار اس نے آپا کھویا /یہ اعلیٰ ذات ، وہ برہمنیت /اس تمام کے ظلم پر/ اس تمام کی نا انصافی پر / ذرا لہجہ بھر ٹھہریں / کیا یہ وہی عورت ہے ؟
جس نے نرم لہجے میں بات کی اور شفقت سے گلے ملی / اور ہم آغوش ہوئی / ننھے بچے / اچھوت / خواتین/ اقلیتیں / ماووادی / چند سنگ گزیدہ چیختے ہیں، وہ کتیا ہیں/ کچھ تو اسے جسم فروش کہتے ہیں
کیونکہ وہ اکیلی ہے / اور اپنی زندگی اپنے مرضی کے مطابق جیتی رہی ہے /مگر سیکڑوں اسے خواہرکہتے ہیں، ہزاروں مادرکہتے ہیں / اور اب لاکھوں کہہ رہے ہیں / ’’ہم سب گوری ہیں ‘‘
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ