ہمارے ساتھ وہی ہوا جو غالب کے ساتھ ہوا تھا۔ غالب نے کہا تھا
میں نے کہا کہ بزم ناز غیر سے چاہئے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں؟
ہم نے فریاد کی کہ ہمیں جیو نیوز سے کیوں محروم کیا جا رہا ہے؟ ہم نے کیا گناہ کیا ہے کہ ہم سے ہمارا بنیادی انسانی حق بھی چھینا جا رہا ہے؟ سننے والوں نے ہماری یہ فریاد سنی اور کہا ’’اچھا؟ تم ایک چینل کو رو رہے ہو، لو ہم جیو کے باقی چینل بھی بند کئے دیتے ہیں۔ اور اب، ہم جیو کا صرف اسپورٹس چینل ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے ٹی وی اسکرین پر باقی چینل کالے سیاہ ہو کر ہمارا منہ چڑا رہے ہیں۔ یہ تھی ہماری فریاد۔ اور یہ ہے اس کا جواب۔ اب ہم کس سے فریاد کریں؟ ذرا یاد کیجئے، یہی جیو نیوز تھا جس نے سب سے پہلے ملالہ یوسف زئی کا اس وقت انٹرویو کیا تھا جب وہ چھوٹی سی بچی تھی۔ گیارہ سال کی لڑکی۔ وہ جو کہتے ہیں ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ تو وہ ایسی ہی ہونہار لڑکی تھی۔ حامد میر نے اس لڑکی کی ذہانت اور فطانت دریافت کی اور جیو پر اس کا انٹرویو کیا۔ یہ 2009کا سال تھا۔ اب جیو کے اس انٹرویو کے بارے میں ملالہ کیا کہتی ہے؟ وہ آپ بھی پڑھ لیجئے۔
’’ایک دن میں جیو پر گئی، جو ہمارے بڑے ٹی وی چینلوں میں سے ایک ہے۔ اس کے دفتر میں ٹی وی اسکرینوں کی ایک دیوار تھی، میں اتنے چینل دیکھ کر حیران رہ
گئی۔ بعد میں، میں نے سوچا کہ ذرائع ابلاغ کو (میرے) انٹرویو کی ضرورت ہے۔ وہ کسی چھوٹی سی لڑکی کا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن لڑکیاں خوفزدہ ہیں۔ اور اگر وہ خوفزدہ نہ بھی ہوں تو ان کے والدین ان کو اجازت نہیں دیں گے۔ میرے والد وہ شخص ہیں جو خوفزدہ نہیں ہیں۔ وہ میرے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا تم بچی ہو، مگر بولنا تمہارا حق ہے۔ میں اس وقت صرف گیارہ سال کی تھی لیکن اپنی عمر سے بڑی لگتی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ میرا خدا میری حفاظت کرے گا۔ اگر میں اپنی لڑکیوں کے لئے آواز اٹھا رہی ہوں تو غلط نہیں کر رہی ہوں۔ ایسا کرنا میرا فرض ہے۔ خدا تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم ایسے حالات میں کیا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ اگر ایک آدمی، فضل اللہ ہر چیز کو برباد کر سکتا ہے تو ایک لڑکی اسے تبدیل کیوں نہیں کر سکتی۔ سوات میں ذرائع ابلاغ طالبان کے حق میں خبریں دینے پر مجبور تھے۔ یہاں تک کہ بعض صحافی طالبان کے ترجمان مسلم خان کو احترام سے اسکول دادا کہتے تھے، حالانکہ وہ اسکول برباد کر رہا تھا۔ لیکن بہت سے صحافی اس بات سے ناخوش بھی تھے۔ انہوں نے ہمیں ایک طاقتور پلیٹ فارم دیا تھا کیونکہ ہم وہ باتیں کہہ دیتے تھے جنہیں کہنے کی وہ جرأت نہیں کر سکتے تھے۔‘‘ اگرچہ جیو کے بعد بی بی سی کے وسعت اللہ خاں نے بھی ملالہ کا انٹرویو کیا تھا لیکن اگر یہ کہا جائے کہ جیو کے انٹرویو سے ہی ملالہ میں بولنے اور حق کے لئے ڈٹ جانے کا حوصلہ پیدا ہوا تو یہ غلط نہ ہو گا۔ اس کے بعد ملالہ نے بی بی سی کے لئے جو ڈائری لکھنا شروع کی اب اس ڈائری کا قصہ بھی پڑھ لیجئے۔
’’یہ انہی تاریک دنوں میں سے ایک دن تھا۔ میرے والد کو اپنے دوست عبدالحئی کاکڑ کی کال آئی۔ وہ پشاور میں بی بی سی کے نمائندے تھے۔ انہیں طالبان کے زیر تسلط علاقوں میں رہنے والوں کی زندگی کے بارے میں ڈائری لکھنے والی کسی استانی یا اسکول کی کسی لڑکی کی تلاش تھی۔ وہ سوات میں ہونے والے انسانی مصائب کا انسانی رخ دکھانا چاہتے تھے۔ ابتدائی طور پر میڈم مریم کی چھوٹی بہن عائشہ اس کے لئے رضامند ہو گئیں لیکن ان کے والد کو یہ اچھا نہیں لگا۔ میں نے اتفاق سے اپنے والد کو یہ بات کرتے سن لیا۔ میں نے کہا ’’میں کیوں نہیں کر سکتی یہ کام؟‘‘ میں نے اس سے پہلے ڈائری نہیں لکھی تھی اور نہیں جانتی تھی کہ آغاز کیسے کیا جائے۔ عبدالحئی کاکڑ شام کے وقت میری امی کے موبائل پر بات کرتے تھے۔ وہ ہمارے تحفظ کی خاطر اپنی بیگم کا فون استعمال کرتے تھے۔ وہ مجھ سے میرے دن کے بارے میں سوال پوچھتے۔ وہ کہتے کہ میں انہیں چھوٹے سے چھوٹا واقعہ سناؤں اور اپنے خواب بتاؤں۔ عبدالحئی صاحب نے کہا کہ میرے لئے اصل نام استعمال کرنا خطرناک ہو گا، اس لئے انہوں نے مجھے گل مکئی کا نام دیا۔ میری پہلی ڈائری ’’میں خوف زدہ ہوں‘‘ کے نام سے 3جنوری2009 کو نشر ہوئی۔ گل مکئی کی ڈائری نے دنیا بھر میں توجہ حاصل کر لی۔ اور میری سمجھ میں آنے لگا کہ قلم اور اس سے نکلنے والے الفاظ مشین گنوں، ٹینکوں اور ہیلی کاپٹروں سے زیادہ طاقتور ہو سکتے ہیں۔ ہم جدوجہد کرنا سیکھ رہے تھے۔ اور ہم سیکھ رہے تھے کہ جب ہم بو لتے ہیں تو کتنے طاقتور ہوتے ہیں۔‘‘
یہ ساری داستان ہم ملالہ کی آپ بیتی سے نقل کر رہے ہیں۔ ملالہ کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ’’میں ہوں ملالہ‘‘ کے نام سے مشعل بکس نے چھاپا ہے۔ اگر آپ ملالہ کو اور ان حالات کو سمجھنا چاہتے ہیں جنہوں نے سوات کی اس بچی کو گل مکئی بنایا، تو یہ کتاب ضرور پڑھ لیجئے۔ چلیے، اب یہ بھی پڑھ لیجئے کہ ملالہ کو گولی کا نشانہ کب اور کیسے بنایا گیا۔ ملالہ نے اس وین کا قصہ لکھا ہے جو اسے اور باقی لڑکیوں کو اسکول لے جاتی تھی۔
’’منیبہ (ملالہ کی سہیلی) اور میں وین کے پچھلے حصے میں بیٹھتے تھے تاکہ ہم باہر دیکھ سکیں۔ جب سے طالبان کو سوات سے ختم کرنے کے لئے فوجی آپریشن شروع کیا گیا تھا اسے تین سال کا عرصہ بیت چکا تھا۔ ہم فوج کے شکر گزار تھے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اب تک وہاں کیوں موجود ہیں۔ چھتوں پر مشین گنوں کے مورچے اور جگہ جگہ چیک پوائنٹس تھے۔ ہماری وادی میں داخلے کے لئے بھی اجازت لینا پڑتی تھی۔ چھوٹی پہاڑی کے اوپر والی سڑک عام طور پر بہت مصروف رہتی تھی۔ یہ مختصر سا راستہ ہے لیکن اس دن وہ سڑک عجیب و غریب طریقے سے پُرسکون تھی۔ میں نے منیبہ سے کہا ’’آج سب لوگ کہاں گئے؟‘‘ وین میں تمام لڑکیاں گا رہی تھیں، یا گپ شپ کر رہی تھیں۔ میں نے دو نوجوانوں کو اچانک وین روکتے نہیں دیکھا۔ مجھے ان کے سوال ’’ملالہ کون ہے؟‘‘ کا جواب دینے کا موقع بھی نہیں ملا۔ آخری چیز جو مجھے یاد ہے وہ یہ ہے کہ میں اس کتاب کے بارے میں سوچ رہی تھی جو مجھے اگلے دن پڑھنا تھی۔ میرے دماغ میں گونجنے والی آوازیں تین گولیوں کی ٹھاہ ٹھاہ کی نہیں تھیں بلکہ ایسی آوازیں تھیں جیسے کوئی شخص مرغیوں کے سر ایک ایک کر کے کاٹ رہا ہے اور انہیں ایک طرف پھینک رہا ہے۔ چاپ چاپ چاپ، ڈرپ ڈرپ کی آوازیں۔‘‘ لیجئے، ہم نے کتاب کے ابتدائی حصے کا انتخاب آپ تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ ہمارے فوجی سرجنوں نے ملالہ کو موت کے منہ سے کیسے بچایا؟ اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے مزید علاج کے لئے اسے بر طانیہ کیسے بھیجا؟ یہ ساری داستان آپ ’’میں ہوں ملالہ‘‘ میں پڑھ لیجئے۔ ایک بات اور بھی یاد رکھیے کہ اردو ترجمے میں انگریزی کتاب سے بھی زیادہ بہت کچھ آپ کو پڑھنے کو مل جائے گا۔ بہرحال، ہم تو ملالہ اور جیو ٹی وی کا تعلق بیان کرنا چاہتے تھے۔ اور یہ بتانا چا ہتے تھے کہ ذرائع ابلاغ کی آزادی میں ہی یہ کارنامے انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ اگر ذرائع ابلاغ کو پابندیوں میں جکڑ دیا جائے تو پھر کتنی ہی ہونہار ملالائیں دشمنوں کی گولیاں کھاتی رہیں گی۔ اور قوم ان کا ماتم کرنے سے بھی محروم رہ جائے گی۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ