پاکستان پیپلز پارٹی 30 نومبر 1967 کو لاہور میں معرض وجود میں آئی۔ اس کے بنیادی کارکنوں میں ڈاکٹر مبشر حسن، معراج محمد خان، شیخ رشید، عبدالحفیظ پیرزادہ، غلام مصطفی کھر، جے اے رحیم اور حیات شیرپاؤ شامل تھے۔ اپنے قیام کے بعد بہت جلد پی پی پی پاکستان کی مقبول ترین جماعتوں میں شامل ہو گئ۔ سارے پاکستان بالخصوص مغربی صوبے کے عوام نے اس جماعت کے انقلابی سوشلسٹ پروگرام کو پرجوش انداز میں خوش آمدید کہا۔ اس کے بنیادی، منفرد، جدید، پرکشش اور انقلابی نظریات کے علاوہ اس پارٹی کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ اس کے خوبرو رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی کرشمہ ساز شخصیت بھی تھی۔ وہ کچھ ہی عرصے میں نچلے طبقے کے لوگوں خاص طور پر نوجوانوں اور طالب علموں کے دلوں میں گھر کر گئے۔ سوشلزم کا نظریہ نیا نہیں ہے۔ انیسویں صدی میں کارل مارکس نے اس نظریہ کو سائنسی انداز میں پیش کر کے عالمی معاشیات اور سیاست کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ بیسویں صدی کے کئ چھوٹے بڑے انقلابات مارکسزم کے زیراثر برپا کیے گئے۔ ان میں لینن کی قیادت میں ہونے والا بالشویک پارٹی کا سویت انقلاب سرفہرست ہے۔
پاکستان کا قیام سردجنگ کے نتیجے میں رونما ہونے والی عالمی تبدیلیوں کا حصہ تھا۔ یہ ریاست روزاول سے آج تک عالمی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہے اور اسے ایک مہرے کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ 1967ء کے بعد بھٹو صاحب کی مقبولیت اور عزائم سے مقامی اور عالمی سرمایہ داروں کے مفادات پر شدید ضرب لگی۔ کچھ ہی برسوں میں زلفی بھٹو جان گئے کہ سرمایہ داروں کے زیراثر اس ملک میں نظریاتی طبقاتی جدوجہد ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے باوجود انھوں نے ان طاقتوں کے ساتھ مصالحت رکھتے ہوئے اصلاحات نافذ کرنے کی سعی کی۔ ان کے ان اقدامات کی وجہ سے انھیں معراج محمد خان جیسے مخلص مارکسسٹ ساتھیوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ان نقصانات کے بعد بھی ان کا وجود ان کے ازلی دشمنوں کے لیے ہمیشہ ایک بڑے خطرے کی علامت تھا۔ ان کی غلطیوں کی وجہ سے بالآخر وہ دن بھی آگیا جب ان کی حکومت اتنی کمزور ہو گئ کہ ایک جرنیل نے 5 جولائی 1977 کو بآسانی ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ 4 اپریل 1979 کو قتل کے ایک متنازعہ مقدمے میں انھیں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا. کروڑوں غریب محنت کشوں کے دل بھٹو کی پھانسی سے ٹوٹ گئے۔ بہت سے لوگوں نے خودسوزی کر لی، کئی لوگوں کو سرعام پھانسی دے دی گئ، بےشمار افراد نے قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، کتنے ہی لوگ جلاوطن ہو گئے۔ پھر ضیا دور ختم ہو گیا، جمہوریت بھی آ گئ، وقت نے زندگی کو بےشمار نشیب و فراز دکھائے، لیکن 4 اپریل 1979 ء کو ٹوٹنے والے دل پھر کبھی نہیں جڑ سکے۔ یہ بات بھٹو والوں کے بچے جانتے ہیں اور ان کی نسلیں بھی ہمیشہ یاد رکھیں گی۔
کچھ پرانے اور تمام نئے مارکسسٹ بھٹو صاحب کی ذات کو پاکستان میں ردانقلاب کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ ایک کھلا سچ ہے کہ پاکستان کے بےشمار لوگوں تک سوشلزم کا پیغام انہی کے ذریعے پہنچا۔ بہت سے لوگوں نے پہلے بھٹو کو اور بعد میں سوشلزم کو جانا۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے مقبول لیڈر تھے اور تاحال ہیں۔ آج ان کی موت کے 39 سال بعد بھی ان سے جلنے والے جلتے رہیں لیکن تاریخ میں ان کا نام ایک عظیم انقلابی کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا۔
فیس بک کمینٹ