ہفتے کے آخری تین دن میں خود کو ایک خیالی Bunker (پناہ گاہ) میں بٹھائے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ صرف اخبارات پڑھنے کے بعد ٹی وی اور سوشل میڈیا سے مکمل پرہیز ذہن کو تھوڑا سکون فراہم کر دیتا ہے۔
اتوار کی دوپہر سے مگر سمارٹ فونز کے ذریعے بھارت میں مقیم کئی دوستوں کے Whatsapp کے ذریعے پیغامات آنا شروع ہوگئے۔ جنوبی کشمیر کے سیبوںکی پیداوار اور وادی کو بھارت سے ملانے والی تاریخی ”مغل شاہراہ“ پر واقع اس ضلع کو حریت پسند نوجوانوں سے ”پاک“ کرنے کے نام پر تین مختلف مقامات پر فوجی آپریشن علی الصبح شروع ہوگئے تھے۔ ان کے نتیجے میں 12”غیر ملکی تربیت یافتہ“ نوجوانوں کو ہلاک کرنے کے دعوے ہوئے۔ ان ”غیر ملکیوں“ کے خلاف ہوئے آپریشنز نے لیکن مقامی آبادی کو مشتعل کر دیا۔ عورتوں اور بچوں سمیت تمام لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل کر قابض افواج کے خلاف نعرے بازی میں مصروف ہوگئے۔ نماز جنازہ کے بعد مشتعل ہوئے ہجوم کو ایک بار پھر اسرائیل سے خریدی ایسی گولیوں کے استعمال سے منتشر کرنے کی کوششیں ہوئیں جن سے نکلے چھرے آنکھوں کی بینائی چھین لیتے ہیں۔
رات گئے آخری پیغام جو مجھے آیا اس کے ذریعے شوپیاں کے ڈسرکٹ ہسپتال میں تعینات ایک ڈاکٹر کے ذریعے اطلاع یہ ملی کہ اس کے زیرِ نگرانی کم از کم 60 افراد کی آنکھوں کے آپریشن ہوئے ہیں۔ کامیابی کی مگر کوئی اُمید نظر نہیں آرہی تھی۔
یکم اپریل 2018ءکا دن مقبوضہ کشمیر کا ایک اور سیاہ دن ثابت ہو رہا ہے جو وادی¿ کشمیر میں احتجاج کی لہر کو شدید تر بنا دے گا۔ پاکستان میں ٹویٹر پر مصروف لوگوں کی اکثریت کو ان واقعات کی لیکن مناسب آگاہی میسر نظر نہیں آئی۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف کراچی میں ہوا T-20میچ ان کی توجہ کا مرکز تھا۔
اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹس کو بند کرنے کے بعد مجھے بھی احساسِ ندامت نے پریشان کر دیا۔ کئی روز سے سوچ رہا تھا کہ اس کالم کے ذریعے آپ کو خبردار کروں کہ بھارت کی مودی سرکار اب فقط لائن آف کنٹرول پر گولہ باری تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ دلی میں منصوبے بنائے جا رہے ہیں کہ BJP کی انتہاءپسند Core Constituencyکو تسلی دینے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں چند ہائی پروفائل آپریشن کئے جائیں۔
پاکستانی سیاست میں لگے تماشوں نے مجھ ایسے کالم نگاروں کو مگر فروعات میں اُلجھا رکھا ہے۔ پاکستان کی عالمی سیاست کے حوالے سے نمودار ہوتی مشکلات کا ذکر ہو تو توجہ زیادہ تر امریکہ کے ساتھ تعلقات تک محدود رہتی ہے۔ افغانستان کا ذکر بھی ہو جاتا ہے اور کبھی کبھار ایران وسعودی عرب کا تذکرہ بھی۔ بھارت کی اندرونی سیاست سے ہم قطعاًَ لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ مودی سرکار کا ہندو انتہا پسندی والا ایجنڈا پاکستان کے لئے سنگین مضمرات کا حامل ہو سکتا ہے۔
تفصیل میں جانے کو یہ وقت مناسب نہیں۔ مختصراً یوں کہہ لیجئے کہ مذکورہ ایجنڈا صرف بھارت کے اندرونی معاملات تک محدود رہتے ہوئے کوئی خاص جلوہ نہیں دکھا پایا ہے۔ ہندو انتہا پسندی کے جنون کے ساتھ BJP نے یوپی کی صوبائی اسمبلی کے لئے الیکشن لڑا اور بے پناہ اکثریت حاصل کرکے اپنے مداحوں کو بھی حیران کر دیا۔ انتخابات جیتنے کے بعد ایک کٹر ”بھگت“یوگی دیانند کو وہاں کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔
یوگی مسلمانوں سے شدید نفرت کے بیانیے کے ساتھ یوپی کے شہر گورکھ پور سے حالیہ تاریخ میں ہوئے 5 عام انتخابات کے ذریعے لوک سبھا کا رکن منتخب ہوتا چلا آرہا تھا۔ 2014 ءمیں بھی یہی ہوا تھا۔ یوپی کا وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد مگر اسے یہ نشست خالی کرنا پڑی۔ اس نشست پر گزشتہ مہینے جو انتخاب ہوا اسے نچلی ذاتوں پر مشتمل سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے ایک کڑے مقابلے کے بعد جیت لیا۔ اس جیت کے بعد سوال اُٹھا کہ کیا مودی سرکار 2019ءمیں متوقع انتخابات بآسانی جیت پائے گی یا نہیں۔ آنے والے دنوں میں چند صوبائی انتخابات بھی ہونا ہیں۔ مودی سرکار انہیں ہر صورت جیتنے کو بے چین ہے۔ ووٹروں کا دل جیتنے کے لئے اس کے پاس مگر اس وقت کوئی مو¿ثر بیانیہ موجود نہیں ہے۔ اس بیانیے کی عدم موجودگی نے مقبوضہ کشمیر کے رہائشیوں پر مزید ظلم کے راستے بنا دئیے ہیں۔
چند ماہ قبل برہان الدین وانی کی ہولناک شہادت کا واقعہ ہوا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے مسلسل یہ حقیقت اُجاگر ہوئی کہ مقبوضہ کشمیر میں نوجوان حریت پسندوں کی ایک نئی کھیپ تیار ہو رہی ہے۔ یہ نوجوان پڑھے لکھے متوسط طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے خاندانوں کی اکثریت سرکاری ملازموں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان فیس بک وغیرہ پر بہت متحرک رہتے ہیں اور اپنے ہم خیال نوجوانوں کے ساتھ روابط استوار کرتے ہوئے بالآخر ایک روز اپنے گھروں سے اچانک غائب ہو جاتے ہیں۔
1990ءکی دہائی میں گھروں سے غائب ہوئے ایسے نوجوانوں کے بارے میں فرض کر لیا جاتا تھا کہ وہ ”جہادی ٹریننگ“ کے لئے پاکستان چلے گئے ہیں۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد ہوئے پے در پے واقعات مگر اب بتاتے ہیں کہ گھروں سے غائب ہوئے نوجوان وادی¿ کشمیر میں ہی موجود ہیں۔ میڈیا میں انہیں Missing Boys کہا جاتا ہے۔ یہ نوجوان کسی نہ کسی طرح جنوبی کشمیر پہنچ جاتے ہیں جہاں شوپیاں کا ضلع انہیں اپنے پہاڑوں ، جنگلوں اور سیبوں سے بھرے باغات کی وجہ سے قابض افواج کی نگاہوں سے دُور رہ کر گوریلا جنگ کی تیاری کے لئے مددگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ مقامی لوگ دل وجان سے ان کے سہولت کار ہونے کو ہمہ وقت تیار ہیں۔
قابض افواج کو لیکن گھروں سے غائب ہوئے نوجوان حریت پسندوں سے کہیں زیادہ غصہ مقامی آبادی پر ہے اور وہ اسے ”سبق سکھانے“ کو بہت دنوں سے بے چین ہو رہی تھی۔ 31 مارچ اور یکم اپریل کی درمیانی رات کو بہت سوچ سمجھ کر ایک منصوبے کے ذریعے شوپیاں میں آپریشن کلین اپ کے نام پر اس غصے کا اظہار ہوا ہے۔ تین ایسے مقامات جو حریت پسندوں کے ٹھکانے شمار ہوتے تھے اس آپریشن کا نشانہ بنائے گئے۔
1990ءکی دہائی سے مقبوضہ کشمیر کے باسی Encounter کے عادی ہوچکے ہیں۔ یکم اپریل کا دن اس حوالے سے شاید ان کے لئے کوئی ”نیا“ دن نہ ہوتا۔ ”شوپیاں کی مقامی آبادی کو لیکن دانستہ مشتعل کرنے کے لئے قابض افواج نے شوپیاں کے ایک مکان میں چُھپے گروہ میں موجود ایک نوجوان کے والد اور والدہ کو ڈھونڈ کر سڑک پر کھڑا کر دیا۔ ان کے ذریعے گھر سے غائب ہوئے ایک بیٹے کو ہتھیار پھینک کر خود کو سکیورٹی حکام کے حوالے کرنے کی ترغیب دی گئی۔ مقامی آبادی نے مکان کے باہر موجود والدین اور اس مکان میں موجود Missing Boyکے درمیان ہوئے مکالمے کو کئی گھنٹے تک دیکھا اور سُنا، والدین اپنے بیٹے کو قائل نہ کر پائے تو انہیں جیپ میں لاد کر گھر بھیج دیا گیا اور اس کے چند ہی لمحوں بعد اس مکان پر دھاوا بولنے کی تیاری شروع ہوگئی۔ طاقت کے وحشیانہ استعمال سے بالآخر اس مکان کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا۔
اس ڈھیر سے ”دہشت گردوں“ کو نکالنے اور ان کی ”شناخت“ کے لئے جو ہتھکنڈے اختیار کئے گئے اس نے مقامی آبادی کو مشتعل کر دیا۔ قابض افواج کو لہٰذا انہیں Collectively Punish کرنے کا موقع مل گیا۔آنے والے دنوں میں ایسے ہی کئی واقعات سوچ سمجھ کر رچانے کا منصوبہ بن چکا ہے جس کے بارے میں پاکستان کا خاموش رہنا ناممکن ہو جائے گا۔ فقط لفاظی اجتماعی ظلم کا نشانہ بنے عوام کا مداوا نہیں کر پائے گی۔ ریاستِ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ”کچھ زیادہ“ کرنے کے لئے مشتعل کیا جا رہا ہے۔ غالباًََ پاک ، بھارت جنگ مسلط کرنے کا ارادہ ہے جو میری ناقص رائے میں ہرگز Limitedرہ کر مودی کو ایک اور الیکشن جیتنے میں مدد نہیں دے سکتی۔
( بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت )
فیس بک کمینٹ