سندھ ہائی کورٹ کی مہربانی سے میں سکھر جیل سے رہا ہو کر لائل پور میں نوکری کی تلاش میں اخباری دفتروں کے چکر لگا کر تھک چکا تھا مگر کسی اخبار میں تو کیا کسی پرائیویٹ فرم میں بھی نوکری نہیں مل رہی تھی اگر کسی کی سفارش سے نوکری مل بھی جاتی تو دوسرے تیسرے دن ہی سی آئی ڈی والے وہاں پہنچ جاتے اور مالک معذرت کر لیتا۔ گورمنٹ ڈگری کالج لائل پور میں ایک پنجابی مباحثہ” پڑھن لکھن نالوں ہٹی پالینی چنگی اے” منعقد ہوا جس میں شرکت کے لیے لاہور سے اداکار طارق عزیز ، ایمان اللہ اور منو بھائی جی تشریف لائے تھے ۔ میں ہال کے دروازے کے قریب کھڑا تھا ، تقریب جاری تھی کہ منو بھائی اسٹیج سے اتر کر دروازے کی طرف آرہے تھے شاید انہیں سگریٹ کی طلب تھی، مجھے دروازے کے قریب کھڑا دیکھ کر انہوں نے مجھے بازو سے پکڑا اور ہال سے باہر لے آئے ۔ میں نے ڈبیا سے سگریٹ نکال کر انہیں دیا اور دوسرا سگریٹ اپنے لیے نکالا ، منو بھائی نے سگریٹ کے پہلے کش کا دھواں اندر نگلتے ہوئے کہا
” آج کل کی کرداں؟“
میں نے کہا
” ویلاں منو بھائی جی کوئی نوکری نہیں دینا اے ڈبی وی آج فیر دوکاندار کولوں ادھار لے کے آیاں“
اس کے بعد ہماری خامشی اور ہمارے سگرٹوں کے دھوئیں کا مکالمہ ہوتا رہا۔ منو بھائی نے سگریٹ کے آخری کش کے دھوئیں کو اندر نگلتے سگریٹ کو بوٹ تلے مسلا اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا سگریٹ کی ڈبیا نکال کر میری قمیض کی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا
” مینوں لاہور آکے ملیں “
تین چار دن بعد ، میں لاہور گیا پاک ٹی ہاوس سے باہر نکلا تو روزنامہ مساوات میں کام کرنے والے الطاف ملک سے ملاقات ہو گئی جن سے لانڈھی جیل میں دوستی ہوئی تھی۔ اور پھر ہم نثار عثمانی جی سے ملنے ڈان کے دفتر چل پڑے۔ منو بھائی وہیں مل گئے ، میں ان کے قریب ہی بیٹھ گیا تھوڑی دیر بعد منو بھائی نے نثار عثمانی جی کو کہا ” آپ لوگ مسعود کو جیل تو لے گئے تھے اب اس کی نوکری کا بھی کچھ کرو “ نثار عثمانی جی نے اسی وقت مساوات میں حفیظ راقب جی کو فون کیا اور میرے بارےمیں تفصیل سے ان سے بات کی ،حفیظ راقب ان دنوں مساوات اخبارکی یونین کے صدر تھے ۔ کچھ دیر بعد خاور نعیم ہا شمی جی بھی وہیں آگئے۔ منو بھائی جی نے خاور نعیم ہاشمی کو کہا جاتے ہوئے مسعود کو اپنے ساتھ لیتے جانا اس کو حفیظ راقب سے ملانا اور آج کے بعدیہ تمہارے حوالے ہے۔
لائل پور میں مساوات میں کام کرنے کی وجہ سے مجھے تین چار بار لاہور جانا پڑتا، ہر بار منو بھائی جی سے ملاقات کرنے ان کے دفتر جاتا اور ہر بار سگریٹ کی ڈبی میری قمیض ، کی جیب میں ڈالنا نہ بھولتے
منو بھائی کے الفاظ میں بلا کی کاٹ تھی اور یہ کاٹ بغیر نظریات سے وابستگی کے نہیں آتی وہ جمہوری لبرل اور انسان دوست نظریات سے آخری دم تک وابستہ رہے ۔ خصوصی طور پہ جابر آمر ضیا کے دور میں جب بہت سے لکھنے والوں نے اپنے قلم کو کھانے کا چمچ بنا لیا تھا منو بھائی نے قلم کو الفاظ کی تلوار بنائے رکھا کالم نگاری کے علاوہ وہ پنجابی میں شاعری میں بھی سکتہ زدہ معاشرے کی گود میں مردہ بچے کو ڈالتے رہے
کالم نگاری کو ایک صنف کا درجہ دینے میں منو بھائی کا بھی بہت بڑا حصہ ہے
ان کی حس مزاح بھی بلا کی تھی
وہ اپنی سوانح عمری ” میں تے منو بھائی“ مکمل کر رہے تھے
میں نے سوچا جہاں میں نے منو بھائی سے اور بہت کچھ لیاہے اپنے اس مضمون کاعنوان بھی ان کی سوانح عمری ”میں تے منو بھائی“ سے ہی لے لوں
فیس بک کمینٹ