ہم چور سپاہی کھیلتے پروان چڑھے ہیں ۔جس کھیل میں جیت سپاہی کی ہوتی تھی اوربالآخر چور قانون کے شکنجے میں پھنس جاتا ۔مگر آج محافظوں کا کردارمشکوک ہے؟ہمارے بچے چور سپاہی کے کھیل سے متنفر ہو چکے ہیں اور گھر کی چار دیواری میں مقید ہیں۔کل ہی کی بات ہے جب سڑک کے درمیان میری والدہ ہذیانی انداز میں گویا ہوئیں:” پولیس کی موبائل آ رہی ہے پیچھے ہٹویہ ایسے ہی فائرنگ کر دیتے ہیں میں کہتی ہوں پیچھے ہٹو“۔یقین مانیے اس وقت ندامت سے میرا سر جھک گیا۔خدارا !یہ وقت اپنے انفرادی مفاد اور ذاتی تحفظ کو یقینی بنانے کا نہیں بل کہ یہ وقت اجتماعی شعور کا ہے ورنہ حالات ابتر ہو جائیں گے۔ہم نے دنیا کو آئین نو دیا۔آج ہم طرز کہن اپنا رہے ہیں کہ جب بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ فرق اتنا ہے کہ آج ہم بچیوں کی عصمت دری کر کے گلا گھونٹتے ہیں۔نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں آج ان کی زندگی اس قدر ارزاں ہے کہ ناحق خون کر دیا جاتا ہے اور کوئی پرسان حال نہیں۔
تم تو کہتے تھے کہ ہوتے ہیں درندے ظالم
میں نے انسان کو انسان نگلتے دیکھا ہے
سانحہ قصور کے زخم مندمل ہوئے نہیں تھے اور انتظار کیس کی گتھیاں سلجھی نہیں تھیں کہ نسیم اللہ عرف نقیب اللہ مسحود کی خبر نے غمزدہ کر دیا۔ایک بے قصور کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔تین بچے یتیم اور ایک عورت بیوہ ہو جاتی ہے۔اگر یہ عام بات ہے تو ایسے معاشرے کا اللہ حافظ۔۔۔ابھی نقیب کا معاملہ جے آئی ٹی کے سپرد کیا ہی تھا کہ خبر آئی کہ پولیس مقابلے میں ایک اور بے قصور’ مقصود ‘مارا گیا۔اس ضمن میں پولیس کے متضاد بیانات سامنے آتے رہے۔لواحقین صدمے کی حالت میں ہیں کیوں کہ بیس دن کے بعد مقصود کی شادی تھی۔بظاہر کراچی کے مجموعی حالات میں پیش رفت تو ہوئی ہے مگر ابھی انصاف ملنا باقی ہے۔ یہ نقیب اور مقصود کا قتل نہیں بل کہ ہمارے آنےوالی نسلوں پر منڈلاتاخطرہ ہے ہے۔پشاور ،پنجاب اور کراچی میں سیاسی کرتب دکھانے سے یا سیاسی تختہ الٹ کر انقلاب نہیں آتے۔ انقلاب کا تعلق قلب سے ہے سو دل بدل کر انقلاب آئیں گے۔تبدیلی کے علم بردارو !آدمی کو انسان بناؤ تبھی حقیقی تبدیلی آئے گی ۔اس ریاست میں کیا تبدیلی آئی گی جہاں شاہ کا مصاحب خوشامدی ہو۔تاریخ گواہ ہے اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؓنے خلافت راشدہ کے طرز پر خلافت کی بنیاد رکھی تو مشورے کے لیے مکحول اور میمون جیسے علما کو مشیر خاص کی جگہ دی اور انصاف کو یقینی بنایا ۔یوں سلاطین امیہ کی ناجائز قوانین کا خاتمہ ہوا۔جب پوری دنیا پر منگول اپنا تسلط قائم کر چکے تھے تو یہ مصری حکمرانوں کی فہم و فراست ہی تھی کہ انھوں نے تاجر کے بھیس میں مذہبی علما تاتاریوں کے پاس بھیجے۔جب کچھ تاتاری حکمران ایمان لے آئے تو پہلی دفعہ تاتاریوں نے ہی تاتاریوں کا خاتمہ کیا۔آج جس شریعت کو ہم نے محض مسجد ،قرآن ،نماز،روزہ،زکوٰة حج سے منسوب کر دیا ہے وہ زندگی کا مکمل ضابطہ حیات ہے ۔یہی وہی شریعت ہے جس کی رو سے دریائے فرات کے کنارے ایک بھوکے کتے کا جواب داہ خلیفہ وقت تھا۔۔حضرت اقبال فرماتے ہیں:
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
ٍٍ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
موجودہ حالات نے خوف و ہراس کو ہوا دی ہے اوراحساس زندگی معدوم کر دیا ۔فرقہ واریت،سیاسی کشمکش،انصاف کا فقدان وہ بنیادی رکاوٹیں ہیں جو ایک صحت مند معاشرے کی راہ میں حائل ہیں۔ایسے ماحول میں صرف مجرم ہی پرورش پاتے ہیں۔چناں چہ ایک صحت مند معاشرے کی بنیا رکھنا ہو گی اور یہی عمل ہماری بقا کا ضامن ہے۔