شدید فالج میں بھی وہ بغیر سہارے اسٹیج پر آتے تھے۔ ایک بار مشاعرے میں کسی صاحب نے انہیں سہارا دینے کی کوشش کی تو بولے ’’بیٹا میں سہارے سے اوپر جانے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ کیفی اعظمی کی پوری زندگی ہی ایسی گزری ہے۔ کانپور سے بمبئی تک انہوں نے اچھے دن بھی دیکھے مگر بہت غربت بھی دیکھی۔ ہمارے ایک ماموں جن سے ان کی دوستی 1914سے تھی، نےبتایا تھا کہ کیفی کا ایک بیٹا دوا نہ ملنے کے باعث فوت ہوگیا تھا۔ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو اپنی ’’صد سالہ‘‘ سالگرہ منانے کراچی ضرور آتے۔ اگر کسی مجبوری کے باعث نہ آپاتے تب بھی وہ کوئی ایسا ’’ٹویٹ‘‘ نہ کرتے جیسا کہ ان کے داماد جناب جاوید اختر صاحب نے کیا۔
آج کا بھارت وہ نہیں جس کا خواب کیفی اعظمی، علی سردار جعفری یا سجاد ظہیر جیسے لوگوں نے دیکھا تھا۔ یہ تو شاید وہ بھی نہیں جس کی خواہش شبانہ اعظمی یا ان جیسے بہت سے فنکاروں میں موجود ہے۔ بمبئی کے خاص ماحول پر نظر ڈالیں تو ان کا اور ان کے شوہر جاوید اختر صاحب کا دورئہ کراچی ملتوی کرنا سمجھ میں آتا ہے۔ مگر شاید معذرت کے چند الفاظ کافی تھے۔ جاوید صاحب تو کچھ آگے چلے گئے۔ یہ خیالات کیفی صاحب کے مشن یا نظریات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ وہ تو گفتگو کے قائل تھے۔ سخت گھٹن کے ماحول میں ہی بولنا اصل آزمائش ہوتی ہے۔ اگر ادیب، شاعر اور لکھاری بھی نفرت کے بہائو میں بہہ جائیں تو ان میں اور ایک کم سوجھ بوجھ رکھنے والے انسان میں کیا فرق رہ جائے گا۔
کراچی میں ’’جشنِ کیفی‘‘ منانے کا فیصلہ اسی لئے کیا گیا تھا کہ ان کے امن و دوستی کے مشن کو آگے لے جانے میں بھی مدد ملے گی۔آرٹس کونسل کراچی میں اس جشن کی تیاریاں کئی ماہ سے جاری تھیں اور بقول کونسل کے متحرک صدر احمد شاہ کے وہ خود شبانہ اعظمی سے رابطے میں تھے۔ پلوامہ کے واقعہ کے بعد جو کچھ بھارت میں ہوا اور ہورہا ہے اس میں اس بات کا امکان موجود تھا کہ شبانہ اور جاوید صاحب کے لئے آنا ممکن نہیں۔ ویسے بھی مودی سرکار نے تو کھیل، ادب، فلم، لوگوں کا ایک دوسرے سے ملنا سب پر پابندی سی لگا دی ہے۔ ایسا ہی ہوا اور دورہ بھی ملتوی ہوا اور کیفی اعظمی کی صد سالہ سالگرہ کا جشن کیفی بھی۔ مگر یاد تو پھر بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس جنونی کیفیت میں جو خاص طور پر اس وقت بھارت میں دیکھنے کو مل رہی ہے ایسے لوگوں کی زندگی اُمید کی کرن کا کام کرتی ہے۔
لمحہ بھر کو یہ دُنیا ظلم بھول جاتی ہے
لمحہ بھر کو سب پتھر مسکرانے لگتے ہیں
کیفی اعظمی، محمد مہدی اور مہش تینوں کی دوستی بڑی مشہور رہی ہے۔ اس دوستی کا ذکر مہدی صاحب نے خودپر بنائی جانے ولی ڈاکومنٹری میں کچھ اس طرح کیا ہے۔’’کیفی سے میری دوستی کا سفر 1941سے شروع ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نہ زبان پر پہرے تھے نہ خیالات پر۔ کانپور میں ہم کچھ طلبہ یونین کے لیڈر سے ہوگئے تھے۔ ایک دن چوہدری عترت حسین ایک نوجوان کو ہم سے ملانے لائے اور کہا کہ تم جوش کے انقلابی اشعار کے گن بہت گاتے ہو، آج ہم تم کو جوش جیسے ایک انقلابی سے ملواتے ہیں۔ کیفی سے تعارف کرایا ہم چارپائی پر بیٹھ گئے اور کہا کہ میاں کچھ سنائو۔ آواز میں بڑی جان تھی اور یوں ان سے دوستی ہوگئی جو مرتے دم تک قائم رہی۔ بعد میں مہیش سے بھی دوستی ہوگئی اور پھر ہم تینوں ہمیشہ ساتھ ساتھ ہی رہے۔ 1946میں بمبئی پہنچ گئے اور وہیں ان کی شادی شوکت سے بنّے بھائی (سجاد ظہیر) کے گھر پر سادگی سے ہوئی‘‘۔
کیفی اعظمی نے بڑی پریشانی کے دن گزارے۔ نظمیں اور غزلیںاخبار اور رسائل میں چھپتیں مگر پیسے نہیں ملتےتھے۔ شروع میں ایک فلم ’’غالب‘‘ بنانے کی کوشش کی بعد میں انہوں نے ایک فلم ’’ہیرانجھا‘‘ بھی بنائی جو صرف گانوں پر مشتمل تھی۔ مگر ان کے فلمی گیتوں نے جو مقبولیت حاصل کی اس کی وجہ سے ان کی توجہ اسکرپٹ سے زیادہ اس طرف چلی گئی۔
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
وہ ہمیشہ جنگ کے مخالفین میں سے رہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین میں بھی وہ خاصے متحرک رہے۔ فالج کا حملہ ہوا تو انہوں نے اس کو بھی عزم و حوصلے سے لیا۔ اپنی بیماری کو کسی پر بوجھ نہیں بننے دیا بلکہ ایک چھڑی کے سوا جس سے چلنے میں مدد ملتی تھی، انہوں نے کبھی کسی دوسرے کا سہارا نہیں لیا۔ اس معاملے میں وہ خاصے حساس تھے۔
جس زمانے میں کیفی اعظمی پاکستان مشاعرہ پڑھنے آتے تھے اور علی سردار جعفری اور دیگر شعرائے کرام کے ساتھ کئی عالمی مشاعرے پڑھتے، حالات اس وقت بھی بہت اچھے نہیں تھے مگر نفرت کی جو لہر اب آئی ہوئی ہے اس میں تو شاید بات کرنا بھی خاصا مشکل ہے۔ لہٰذا کہہ نہیں سکتے کہ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو کیا ردِعمل ہوتا۔ جس کیفی اعظمی کو ہم جانتے ہیں وہ یا تو بمبئی چھوڑ کر دلی آجاتے مگر انتہا پسندوں کے دبائو میں ایسا بیان نہیں دیتے جس سے انتہا پسندی کو فروغ ملے۔
بات چیت کے لئے سازگار ماحول کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مذاکرات سے ماحول سازگار ہوتا ہے اور بات سے بات نکلتی ہے۔ اگر مودی جی کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ انہوں نے عمران کو اپنے پہلے پیغام میں غربت کے خاتمے کا کہا تھا تو اس نے تو اقتدار سنبھالتے ہی پہلی تقریر میں یہ بات کی تھی۔ تو پھر دیر کس چیزکی ہے۔ راستہ کھولیں بات کرنے کا، لوگوں میں نفرت کے بیج بونے کے بجائے پھول کی خوشبو پھیلانے کی طرف قدم بڑھائیں۔ عمران کا تو بیانیہ ہی جنگ کے خلاف ہے چاہے وہ افغانستان ہو یا بھارت۔
کھیل، ہار جیت برداشت کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ کرکٹ، ہاکی یا دیگر کھیلوں کے تبادلے ہوں گے تو معاشرے میں ٹھہرائو آئے گا۔ فنکار، لکھاری اور دانشور ملیں گے تو نئی نئی راہیں کھلیں گی۔ نفرتیں پھیلانا آسان ہوتا ہے مگر ایک بار یہ پھیل جاتیں تو پھر روکنا کسی کے بس کی بات نہیں۔
غربت عدم برداشت کو جنم دیتی اور ناانصافی انتہا پسندی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے جو دہشت کی شکل اختیار کرتی ہے۔ اگر یہ بات سمجھ میں آگئی ہے تو پھر گفتگو کا آغاز کریں۔ مسئلہ کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو دلیل سے حل کیا جاسکتا ہے۔ شرط صرف حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کی ہے۔
اگر مذاکرات کا آغاز غربت کے خاتمہ سے ہوتا ہے تو سمجھ لیجئے کہ کیفی اعظمی کی صد سالہ سالگرہ کا آغاز ہوگیا ہے۔ سندھ کے بارے میں تو وہ اپنی زندگی میں ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ
عجب کیا دامنِ یوسف کی عظمت ان کو مل جائے
کراچی میں جو کچھ تار گریباں چھوڑ آیا ہوں
پریشاں خواب جتنے سندھ کی زلفوں نے بخشے تھے
اُنہیں کے نام وہ خوابِ پریشاں چھوڑ آیا ہوں
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ