موجودہ ابتر معاشی صورتحال میں جو شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ میڈیا انڈسٹری ہے ہر ادارے نے ڈاؤن سائزنگ کے نام پر سینکڑوں عامل صحافیوں اور کارکنوں کو ملازمت سے فارغ کر دیا کئی نجی ٹی وی چینلز بند ہوگئے اور کئی اشاعتی اداروں نے اپنے دائرہ کار کو بہت زیادہ محدود کر دیا اب صورت حال یہ ہے کہ میڈیا انڈسٹری خصوصاً پرنٹ میڈیا کے جسم میں جان ہے نہ روح ، بس نبض چل رہی ہے ۔
معاشی بحران کے علاوہ میڈیا انڈسٹری کے بحران کی کئی اور وجوہات بھی ہیں ان میں سرکاری اشتہارات کے کوٹہ میں کمی ، جدید ٹیکنالوجی کی آمد سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال کاغذ کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ اخبار کی تیاری میں استعمال ہونے والے دیگر خام میٹریل کا مہنگا ہونا اور قارئین کی تعداد میں مسلسل کمی جیسے عوامل شامل
ہیں ۔۔
یوں تو ملک بھر کے صحافی اور ورکرز اس بحران کا شکار ہوئے مگر ملتان کے صحافی سب سے زیادہ اس ڈاؤن سائزنگ کا نشانہ بنے ایسے ایسے جید صحافی جن کے بغیر کسی اخباری ادارے کا تصور کرنا بھی ناممکن تھا نکال باہر کیے گئے اور آج وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ملتان کے صحافی اور ورکرز اس لئے بھی زیادہ متاثر ہوئے کیونکہ کسی بھی بڑے اخباری گروپ کے مالکان ،ایڈیٹرز کا تعلق ملتان سے نہیں ہے اور یہاں صرف پرنٹنگ سٹیشن تھے۔ تمام اشاعتی اداروں کی انتظامیہ بھی لاہور اور کراچی میں ہے اس لئے جب ڈاؤن سائزنگ کا مرحلہ آیا تو بڑے شہروں میں بیٹھی مینجمنٹ نے ملتان کے
ساتھ ہی سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا اور یہاں کے صحافیوں کو ہی قربانی کا بکرا بنا کر بچت اور اخراجات میں کمی کی بھینٹ چڑھادیا گیا یہی وجہ ہے کہ آج تمام بڑے اخباری گروپوں کے پرنٹنگ سٹیشن ملتان میں قائم ہونے کے باوجود یہاں کے صحافی خود کو لاوارث اور مظلوم محسوس کررہے ہیں جن اداروں میں جو صحافی اور ورکرز بچ گئے ان کی تنخواہیں اور مراعات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہ بڑی مشکل سے جسم اور سانس کی ڈوری کو قائم رکھے ہوئے ہیں ۔
میری ذاتی رائے میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ عامل صحافیوں کے روز
گار، عزت و وقار کو سب سے زیادہ ٹھیس اداکار نماا ینکرز پرسنز اور اینکرنیوں نے پہنچائی جن کا نہ کوئی نظریہ ہے نہ وژن ۔ عوام میں مایوسی پھیلانا اور ہر کام کو منفی دکھانا ہی ان کی نام نہاد صحافت کا مرکز و محور ہے دن بھر بھوکے پیاسے رہ کر اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر خبر ہمارا رپورٹر لاتا ہے مگر یہ اداکار کسی ایک خبر کو پکڑ کر خود ساختہ
تجزیہ کی آڑ میں اس خبر کی خوب بال سے کھال اتارتے ہیں 3دن ایک ایک گھنٹہ کا شو کرتے ہیں سیاستدانوں کو آپس میں لڑاتے ہیں اپنا ایجنڈا ان پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں تماشہ دیکھتے ہیں اور اگلے 3-4 روز کیلئے بیرون ملک جا کر سیر سپاٹے کرتے ہیں اینکرز اور اینکرنیاں عوام میں مایوسی اور بے چینی پیدا کرنے کا لاکھوں میں معاوضہ وصول کرتے ہیں مراعات الگ لیتے ہیں کیونکہ جس طرح وہ میڈیا مالکان کے تحفظ کرتے اور ”مخصوص لوگوں” کا ایجنڈہ آگے بڑھاتے ہیں عامل صحافی اس کاتصور بھی نہیں کر سکتے یہی وجہ ہے کہ میڈیا مالکان کی بقاء کا تمام تر دارومدار ان اینکرز اور اینکرنیوں پر
ہے۔
حالیہ مہینوں میں میڈیا میں جتنی ڈاؤن سائزنگ ہوئی اس میں صرف ورکرز صحافی ہی زد میں آئے تمام اینکرز نہ صرف موجود ہیں بلکہ ادھر سے ادھر اڑان بھر کر خوب مال پانی بھی بنا رہے ہیں جبکہ اس کے برعکس صحافی اپنے بچوں کی روزی کیلئے مارے مارے پھررہے ہیں بقول سینئر کالم نگار وتجزیہ نگار حسن نثار ان اینکرز کا صحافت سے دور دور کا بھی تعلق واسطہ ہے اور نہ یہ خود کو صحافی کہلوانے کے حقدار ہیں کیونکہ صحافی صرف وہ ہوتا ہے جس نے رپورٹر کی حیثیت سے فیلڈ کی خاک چھانی ہو سب ایڈیٹر بن کر ڈیسک پر بیٹھ کر راتوں کی نیندیں حرام کی ہوں مگر چینلوں پر براجمان چند ایک کے سوا کوئی بھی چہرہ ایسا نہ ہے جس نے کسی پرنٹ میڈیا میں عملی طور پر کام کیا ہو اب جبکہ سوشل میڈیا پر یہ افواہیں بڑے زور و شور سے گردش کررہی ہیں کہ ایسے ہی چند بڑے ناموں کے کھاتے کھل رہے ہیں جنہوں نے ماضی میں خوب مال پانی بنایا اور گل چھڑے اڑائے تو بچے کھچے صحافیوں کو ممکنہ احتجاج کیلئے اکسایا جارہا ہے کہ ہمیں بچاؤ اگر ہم نہ بچے تو خدانخواستہ
میڈیا انڈسٹری تباہ ہو جائے گی اس کا مستقبل تاریک ہو جائے گا آزادانہ اور بے باک صحافت کی عزت و آبرو پر داغ لگ جائے گا ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہر ادارے کے سینکڑوں صحافیوں کو نکال دیا گیا تو کیا کسی ایک اینکرز نے اپنے کسی پروگرام میں اس بارے ایک مذمتی لفظ بھی ادا کیا احتجاج ریکارڈ کرایا ہو کسی نے کسی متاثرہ صحافی کے گھر جا کر یا مل کر ہمدردی کا اظہار کیا ہو کہ وہ اپنی زندگی کیسے گزار رہا ہے اس کی خبر گیری کی ہو اور کچھ نہ سہی 6سے7 ہندسوں میں تنخواہ لینے والےیہ اینکرز اپنی تنخواہوں کے 5یا10فیصد سے ایک صحافتی فنڈ ہی قائم کر دیتے جس سے بیروزگار ہونے والوں کی عزت نفس برقرار رکھنے کیلئے اس وقت تک ماہانہ مشاہرہ دیا جاتا جب تک وہ دوبارہ بر سر روزگار نہ ہو جائے ان کی ڈھارس بندھاتے مالکان سے بات کرکے صحافیوں کو حقوق دلاتے مگر سب کو اپنے اپنے پیٹ کی فکر تھی دوسرے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے کسی کو کوئی خبر نہیں صحافیوں کی برطرفیوں پر صحافتی تنظیموں کا کردار بھی مایوس کن رہا اور کسی صحافتی تنظیم نے خود کو مزاحمتی یا مذمتی تنظیم ثابت نہ کیا ملتان میں یوں تو کئی صحافتی تنظیمیں قائم ہیں اپنے ناموں کے ساتھ عہدوں کا لاحقہ لگانے والے ہر کسی نے اپنی اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں کو ہی دے کے مصداق عہدے تقسیم کرکے خوب پروٹوکول انجوائے کئے جارہے ہیں صحافیوں کی برطرفیوں پر اوپر کی سطح پر آواز اٹھانا تو درکنار مقامی سطح پر بھی کسی نے ایک لفظ تک مذمتی ادا نہ کیا کوئی واک ہوئی نہ ریلی نکالی کوئی کیمپ لگا نہ بیروزگار ہونے والوں کی ڈھارس بندھائی گئی یہاں تک کہ بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھنے کا معمولی سا احتجاج بھی نہ کیا گیا ان تنظیموں کے شو باز عہدے داران کی صحافیوں کے مفاد میں کتنی دلچسپی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں صحافیوں اور اخباری کارکنوں کیلئے نئے ویج بورڈ کے اعلان کے سلسلہ میں چیئرمین ویج بورڈ کمیشن جسٹس(ر) حسنات احمد ملتان آئے ان کی آمد کا مقصد ملتان کے صحافیوں اور مالکان سے مل کر ویج بورڈ کیلئے تجاویز لے کر سفارشات مرتب کرنا تھا ملتان کے صحافیوں کی بد قسمتی دیکھیں کہ کسی صحافتی تنظیم کے کسی عہدے دار نے ان سے ملاقات تک نہ کی حالانکہ اس سلسلے میں منعقدہ اجلاس میں کئی مقامی اخبارات کے مالکان، صدر و جنرل سیکرٹری ، فنانس سیکرٹری و دیگر عہدے داران اے پی این ایس اسلام آباد سے ورکرز کے نمائندے شریک تھے مگر کسی کو آنے کی زحمت نہ ہوئی تو وہ ملتان کی صحافتی تنظیموں کے عہدے دار تھے صرف ایک سینئر صحافی مسیح اللہ جام پوری جن کو اب نہ کوئی ویج بورڈ چاہئے نہ مراعات نے تقریباً دو گھنٹے تک چیئرمین صاحب اور اے پی این ایس کے عہدے داران کے سامنے صحافیوں کے حقوق تنخواہوں اور مراعات کا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑا اور اپنا مؤقف ریکارڈ کرایا ملتان کے صحافیوں کے نام پر عہدے اور مراعات حاصل کرنے والے عہدے داران کو صحافیوں کے حقوق کا تعین کرنے کیلئے منعقدہ اجلاس میں تو شرکت کرنے کی توفیق نہ ہوئی مگر جب ان کے بڑے آقاؤں کو نقصان پہنچنے کی افواہیں پھیل رہی ہیں تو ان کے ساتھ سیلفیاں بنوا کر صحت افزا مقامات کے سیر سپاٹے کرنے تصاویر سوشل میڈیا پر تصاویر پوسٹ کرکے ان صحافیو ں کے زخموں پر نمک پاشی کی جارہی ہے جن کے گھروں کے چولہے بیروزگاری کی وجہ سے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں بیروزگار ہونے والوں کی پوسٹیں دکھ اور درد کا دیکھ کر دل منہ کو آتا ہے کہ پورے معاشرے کو احساس اور انسانیت کا درس دینے والے ہم خود کتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ اپنے ساتھیوں کے بیروزگار ہونے پر ماتم کرنے کی بجائے بغلیں بجاتے پھررہے ہیں ملتان میں بیروزگار ہونے والے صحافیوں کی برطرفیوں پر مقامی صحافتی تنظیموں کا جو کردار رہا اس کا اندازہ گزشتہ دنوں ایک متاثرہ صحافی بھائی کی اس پوسٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ صحافتی عہدے داروں کیلئے مٹی کا پیالہ لے کر ایک قطرہ پانی بھی ڈال لیا ہے شاید ان کو کچھ شرم آجائے۔