ایک تھی پیپلز پارٹی جس کی چیئرپرسن شہید ملک کی بنیاد کے خلاف فیصلوں پر سیمینار ، اور مباحثہ کرواکر عوام کو ایجوکیٹ اور متحرک کرتی تھی ملک کے تھنک ٹینک کو متحرک کرکے ان فیصلوں کے خلاف کامیاب مزاحمت کرتی تھی ۔۔۔۔ اور کم تعداد کمزور اپوزیشن کے باوجود مضبوط ترین نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لاکر فیصلے تبدیل کرنے پر مجبور کرتی تھی ۔
سٹیٹ بنک کی خود مختاری ، اور نیپرا کو وسیع تر اختیارات کے اثرات اور مستقبل میں ملک کی معاشی صورتحال پر عوام کے شکوک شبہات پر مؤثر نمائندگی کی بجائے ، کمپرومائز اور ڈرائنگ روم کی سیاست ، بجائے اس پر عوامی ردعمل دکھانے کہ کچھ خفت زدہ چہرے صرف اور صرف پریس کانفرنس اور وہ بھی دوسرے درجے کی لیڈر شپ کے ذریعے ،اب والی پاکستان پیپلز پارٹی اتنی بانجھ اور عوام دشمن سیاست کیوں کر رہی ہے۔
مجھے شدید حیرت ہوتی ہے جب ملک کی ایک بڑی جماعت کے نمائندہ کچھ غیر منتخب چہرے روانہ شام کو کسی مقصد،کسی مہم کی ترویج کی بجائے کچھ ایسے فیصلوں کا دفاع کر رہے ہوتے جن کا عوامی تکالیف سے کوئی تعلق نہیں ، عوام چاہتی ہے ،ضروریات زندگی سستی ہوں ،بجلی کا نرخ ہرماہ نہ بڑھے ،علاج معالجہ مفت نہ ہو تو سستا ہو ، کورونا ویکسین وزرا کے ڈرائنگ روم میں انکی فیملی کی بجائے عام ہسپتال میں ان کو بھی لگے ، کچھ نہ کچھ روزگار چلتا رہے ، مگر اس لیڈر شپ کے نمائندے کھلے عام ہزیمت اور شکست کو فتح قرار دیں ، چیئرمیںن سینٹ کے لئے مد مقابل کی غیر قانونی اور غیر اخلاقی فتح کے بعد اسی چیئرمین کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر پتلی گلی سے حاصل کردہ( ایک سابق وزیراعظم ) کی سینٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن کی سیٹ کا نوٹیفیکیشن لینے کو فتح مبین سمجھے اور پارٹی چیئرمین خوشیوں سے بغلیں بجاتے ہوئے ماضی قریب کے سیاسی ساتھیوں کو لمبے لمبے سانس لینے اور ٹھنڈا پانی پینے کا مشورہ دے ، مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آرہی کہ وہی سنجرانی غیر قانونی اس کا نوٹس قانونی ، اس طرز عمل نے مجھے جنجھوڑ کے رکھ دیا ہے یا شائد میں پی پی پی پی کے چوتھے پی کو پرائیویٹ لمیٹڈ والا پی سمجھوں ، اور اس خیال کو ذہن میں لا کر تسلی دوں کہ
مگر وہ وہ ہے وہ اس کی پارٹی ہے اور اس میں ذاتی مفادات کی سیاست ہو رہی ہے
فیس بک کمینٹ