پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اس بیان کو مسترد کیا ہے کہ پاکستان نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا اور بدستور دہشت گردی کے ذریعے خود کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نریندر مودی نے یہ بیان گزشتہ روز کارگل کے مقام پر دونوں ملکوں کے درمیان کارگل جنگ کے 25 سال مکمل ہونے پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا۔
نریندر مودی سیاسی بیان بازی کے شعبدہ باز ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں مسلمانوں اور پاکستان سے نفرت کو اہم ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ گزشتہ ماہ منعقد ہونے والے انتخابات میں نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو انتخابات میں شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران میں انہوں نے بھارت میں آباد مسلمانوں کو ہندوؤں کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ لوگ زیادہ بچے پیدا کر کے ایک روز اکثریت حاصل کر لیں گے۔ نریندر مودی نے لوک سبھا میں 400 سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کا ہدف مقرر کرتے ہوئے اپنے ان عزائم کو بھی نہیں چھپایا تھا کہ کامیابی کی صورت میں وہ ملک کا سیکولر آئین تبدیل کریں گے۔ اور بھارت کو ہندو راج میں تبدیل کر دیں گے۔
نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کے زیادہ تر بیانات چونکہ نعرے بازی کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں، اس لئے ان دعوؤں کی اصل حقیقت کبھی سامنے نہیں آ سکی کہ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے بعد وہ کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اور ایسی ریاست میں مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کی حفاظت کیسے ممکن بنائی جائے گی۔ یا انہیں ہندو ریاست میں کون سے حقوق حاصل ہوں گے؟ گزشتہ ایک دہائی سے بھارت پر حکمرانی کے دوران میں نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کے حقوق سلب کیے ہیں۔ ملک میں خوف کی فضا پیدا کی ہے۔ ہندو انتہا پسند گروہوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوئی ہے جو علی الاعلان مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں اور تشدد کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں پر حملے، ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتوں اور دیگر قسم کا تشدد نمایاں طور سے دیکھنے میں آیا ہے۔ مذہبی بنیاد پر تعصب یا دوری تو شاید ہر معاشرے میں موجود ہوتی ہے لیکن جب ریاست مذہبی منافرت کی حوصلہ افزائی کرے اور اسے تحفظ فراہم کیا جائے تو اقلیتوں کا جینا دو بھر ہوجاتا ہے۔ بھارت میں یہ صورت حال اس وقت بطور خاص ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ پولیس اور انتظامیہ مسلمانوں کے خلاف جرائم کا نوٹس نہیں لیتی اور کسی انتہائی صورت میں معاملہ عدالتوں تک پہنچ جائے تو عام طور سے فیصلہ تشدد کرنے والوں کے حق ہی میں صادر ہوتا ہے۔
عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو اکثریت سے محروم کر کے بھارتی عوام نے سیکولر بھارت کی حفاظت تو کی ہے لیکن نریندر مودی دیگر چھوٹی اتحادی پارٹیوں کے ساتھ مل کر بدستور اقتدار پر قابض ہیں۔ کارگل میں کی گئی تقریر سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنا نفرت اور انتہا پسندی کا ایجنڈا ترک کرنے پر راضی نہیں ہیں۔ اس پروپیگنڈے کی بنیاد اس نفسیاتی ہتھکنڈے پر رکھی گئی ہے کہ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیا جائے۔ اس طرح ملکی حفاظت اور شان و شوکت کے نام پر قومی ہیجان پیدا کیا جاتا ہے اور خطے میں نفرت کو عام کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس وقت برصغیر کے عوام کی غربت و معاشی پریشانی دور کرنے کے لیے سیاسی بنیادوں پر پیدا ہونے والے فاصلے کم کرنے اور دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان پل بنانے کی شدید ضرورت ہے۔نریندر مودی کا تازہ بیان کوئی تاریخی حقیقت بیان نہیں کرتا۔ اگرچہ اس کی بنیاد یقیناً پاکستان کی بعض ایسی غلطیوں پر ہی ہے جس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں فاصلہ بڑھا ہے۔ ایسا ہی ایک سانحہ 1999 کے دوران میں پاکستان کی جانب سے شروع کی گئی کارگل جنگ تھی۔ حکومت کو لاعلم رکھتے ہوئے اس عسکری کارروائی میں جنرل پرویز مشرف بھارت سے تزویراتی اہمیت کے علاقے ہتھیانا چاہتے تھے لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو البتہ امریکی صدر بل کلنٹن کی مدد سے اس تنازعہ کو ختم کروانا پڑا تھا تاکہ یہ سرحدی چپقلش دونوں ملکوں کے درمیان کسی بڑی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے۔ ایسی کسی جنگ کے نہ پاکستان اور بھارت متحمل ہوسکتے ہیں اور نہ ہی یہ دنیا کے مفاد میں ہے۔ کیوں کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں اور سرحد کے دونوں طرف ایسے جذباتی اور کم ظرف لوگ اقتدار پر قابض رہتے ہیں جو امن کے دنوں میں بھی ایٹم بم سے ’دشمن‘ کو تباہ کرنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ ایسی رائے ظاہر کرتے ہوئے ہرگز یہ نہیں سوچا جاتا کہ ایٹمی جنگ کا آغاز کسی طرف سے ہو اس سے دونوں طرف نقصان ہو گا۔ لوگ مریں گے اور پورا علاقہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔ دنیا کے لیڈروں کو یہی خطرہ لاحق رہتا ہے کہ برصغیر میں ایسے کسی تصادم کی صورت میں پیدا ہونے والی تابکاری دنیا کے وسیع علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے اپنی حفاظت کے لئے جوہری ڈیٹرنس (روک تھام) حاصل کرنے کے باوجود اب باہمی تنازعات حاصل کر کے امن قائم کرنے کی طرف قدم نہیں بڑھاتے۔
پاکستان کی طرف سے بھی کشمیر کو تنازع بنا کر مواصلت و مصالحت کے راستے مسدود کیے گئے لیکن نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت اس افسوسناک گمان میں مبتلا دکھائی دیتی ہے کہ اس کے سامنے پاکستان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اس لیے پاکستان دشمنی کو ملکی سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اسی بنیاد پر کشمیر میں آزادی کی جائز مسلح جد و جہد کو پاکستان کی دہشت گردی اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کو پاکستانی عناصر کا سر کچلنے کی کوشش بتایا جاتا ہے۔ حال ہی میں اتر پردیش میں یوگی ادتیا ناتھ کی حکومت نے ’کنور یاترا‘ کو جانے والے تمام راستوں پر موجود دکانداروں سے کہا ہے کہ دکانوں پر مالک کا نام نمایاں طور سے لکھا جائے۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کی آبادی بیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ متعدد مسلمان ان راستوں پر کھانے پینے اور دیگر ضروری ساز و سامان فروخت کرنے کی چھوٹی دکانیں چلاتے ہیں یا ٹھیلے لگاتے ہیں۔ ’کنور یاترا‘ ہندو دھرم کا اہم مذہبی تہوار ہے۔ اس میں لگ بھگ 5 کروڑ یاتری حصہ لیتے ہیں۔ عام طور سے یہی سمجھا جا رہا ہے کہ ریاست کے اس حکم کا مقصد غریب اور متوسط مسلمان خاندانوں کو معاشی طور سے کمزور کرنا ہے۔
شروع میں مظفر نگر، سہارن پور اور متصل اضلاع میں یہ حکم دیا گیا تھا۔ اس پر احتجاج سامنے آنے کے باوجود وزیر اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ نے پوری ریاست میں اس حکم پر عمل درآمد کا اعلان کیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹھیلوں یا چھوٹی دکانوں پر مالک کا نام لکھنے کا کوئی جواز نہیں، اس سے مذہبی تعصب کو ہوا ملے گی اور ایک مذہبی فریضہ ادا کرنے والے یاتری مسلمانوں سے خریداری نہیں کریں گے۔ اس رائے کے مطابق یہ ریاستی حکم وزیر اعظم نریندر مودی کے نعرے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواش‘ کے بھی خلاف ہے۔ البتہ ریاستی حکومت یہ فیصلہ نافذ کرنے پر بضد ہے۔ ایسی میڈیا رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ اس صورت حال سے تنگ آ کر بعض مسلمان مالکان نے اپنی دکانیں ہندوؤں کو فروخت کر دیں۔ ایسے ہندو مالکان کو پولیس نے متنبہ کیا کہ وہ اپنے ہاں کام کرنے والے سب مسلمان ملازمین کو نوکری سے نکال دیں۔ یوں یہ سچ کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ یوگی ادتیا ناتھ درحقیقت اس حکم سے کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ تنازعہ کارگل میں نریندر مودی کے بیان اور پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز گفتگو کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی ملکی اقلیتوں اور بطور خاص مسلمانوں کو اچھوت کی سطح پر لاکر انہیں سماجی مرتبے اور معاشی حیثیت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت میں یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو نشانہ بنانا ضروری ہے تاکہ ایک طرف اس مذہبی شدت پسندی کو بیان بازی کے شور میں چھپایا جا سکے تو دوسری طرف پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کی بنیاد پر دنیا میں پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں تیز کی جائیں۔ اس تقریر میں نریندر مودی نے دعویٰ کیا کہ ’پاکستان نے ماضی میں جتنے بھی اقدامات کیے اسے منہ کی کھانی پڑی ہے۔ لیکن پاکستان نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ وہ دہشت گردی کے سہارے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ ۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے معمول کے ایک بیان میں اس دعوے کو مسترد کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’دوسروں پر دہشت گردی کے الزامات لگانے سے پہلے بھارتی رہنماؤں کو دوسرے ممالک میں ٹارگٹ کلنگ اور تخریب کاری کا جواب دینا چاہیے‘ ۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کے سنگین الزامات کے جواب میں وزیر اعظم، وزیر خارجہ یا کسی اہم شخصیت نے کوئی رد عمل دینا مناسب نہیں سمجھا۔ یہ رویہ پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی اور ایک بڑے ہمسایہ ملک کے وزیر اعظم کے جارحانہ بیان کی توثیق کا سبب بنتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم کے الزامات کے جواب میں پاکستان کو بھی اسی شدت اور اسی سطح پر اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے تاکہ عالمی طور پر ادارے اور حکومتیں یک طرفہ بیان بازی سے کوئی رائے نہ بنائیں اور پاکستان کا دو ٹوک اور واضح موقف بھی سامنے رہے۔
بیان بازی کے مقابلے سے قطع نظر نریندر مودی کی یہ بات سمجھنے اور اس کا جائزہ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے کہ ہر ملک کو تاریخی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ پاکستان نے کبھی ماضی قریب میں خارجہ تعلقات اور ملکی معاملات کے بارے میں جائزہ لینے اور ان سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ اس کی سب سے سنگین مثال سقوط ڈھاکہ کا وقوعہ ہے جو ملک پر فوجی آمریت کی وجہ سے رونما ہوا لیکن پاکستان میں اس سانحہ کے محض ساڑھے پانچ سال بعد ہی ضیا الحق نے ملکی اقتدار پر قبضہ کر لیا اور 11 سال تک آمریت قائم رکھی۔ اس کے بعد سے قائم ہونے والی تمام حکومتیں کسی نہ کسی وجہ سے فوجی قیادت یا اسٹیبلشمنٹ کی دست نگر رہی ہیں۔ اس صورت حال میں اگر ہمسایہ ملک کا وزیر اعظم پاکستان پر طعن زنی کرتا ہے تو اس پر مشتعل ہونے کے ساتھ یہ غور بھی کرنا چاہیے کہ ہم کیوں اس کج روی کا شکار ہیں جو ہمیں بطور قوم و ملک ناکامی اور پریشان حالی کی طرف دھکیل رہی ہے۔
دوسری طرف تاریخ سے سبق سیکھنے کا اصول صرف پاکستان پر ہی منطبق نہیں ہوتا۔ بھارتی حکومت اور سیاست دانوں کو بھی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ تاریخ سے سیکھنے کا عمل کسی ایک علاقے میں رونما ہونے والے واقعات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اصلاح احوال کے لیے مختلف ممالک اور ادوار میں رونما ہونے والے واقعات پر غور کیا جاسکتا ہے۔ بھارت ہی کو دیکھ لیا جائے تو نریندر مودی اور ان کی پارٹی ملک کو مذہبی انتہاپسندی کی طرف دھکیلنے کے اسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جسے پاکستان میں سابق فوجی آمر ضیا الحق نے متعارف کروایا تھا۔ کیا مودی کو نہیں سیکھنا چاہیے کہ اگر مذہبی انتہاپسندی سے ترقی کی طرف بڑھتا پاکستانی معاشرہ زوال کا شکار ہو سکتا ہے تو بھارت میں اس کے نتائج مختلف کیسے ہوسکتے ہیں؟
(بشکریہ کاروان ناروے)