ہم سمجھے تھے کہ پاکستان کے عوام ہی بےصبرے ہیں اور منتخب حکمرانوں کے خلاف دھرنے دیتے ہیں، یہاں تو امریکیوں نے بھی ڈونالڈ ٹرمپ کو منتخب کرتے ہی رد کر ڈالا۔
جی ہاں! اس مرتبہ امریکا انقلاب کی زد میں ہے۔ اس لئے نہیں کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کوئی انقلابی سیاست کے موڈ میں ہیں، بلکہ اس لئے کہ عالمی ابلاغ کو راہ دکھانے والے امریکی صحافی اپنی ناکامیوں پر سٹپٹائے ہوئے ہیں۔ عرصہ دراز سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی راہ نمائی سے کہانیاں تراشنے کے ماہرین اپنے گھر سے بے خبر رہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کس طرح تقسیم ہو رہا تھا، کوئی اندازہ ہی نہ لگا سکا۔ نسل پرستی رنگ لائی اور امریکا میں سیاہ فام صدر کے دن پورے ہوئے۔
مگر یہ ٹی وی چینلز پر بیٹھے دانشور نو منتخب صدر کو موقع دینے کو تیار ہی نہیں۔ یہاں تک کہ امریکا کی عدالتیں بھی ٹرمپ صاحب کو عوامی لیڈر سمجھ کر انصاف کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ آخر ایسا کیا ہوا کہ جمہوریت کے دعویدار امریکی ایک منتخب صدر کو موقع دینے کو تیار نہیں؟ درحقیقت امریکی عوام نے سیاہ فام صدر کو موقع دیا مگر بارک اوباما جوہری خطرات سے لے کر ماحولیاتی آلودگی تک دنیا کو محفوظ بنانے میں تو سرگرداں رہے، مگر وہ امریکی معاشرے میں غیر امریکیوں کے بڑھتے تناسب اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ امریکی عوام کی اکثریت باہر سے آنے والی افرادی قوت کو دہشت گردی اور جرائم میں اضافہ کا سبب سمجھتی ہے۔ پاکستان میں بھی ہمارے نیوز چینل خوب چلا رہے ہیں۔ ٹرمپ کو ملامت کر رہے ہیں۔ بھلا ٹرمپ نے ایسا کیا کر ڈالا جو ہمیں ناگوار گزرا ہو؟ میکسیکو کے ساتھ دیوار کی بات؟ یہ تو عین ہم پاکستانیوں کے مزاج کے مطابق ہے۔ ایک طویل عرصہ سے پاک سرزمین کو فصیلوں کے بیچ اسلام کا قلعہ اور امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں۔ ہم افغانستان کے ساتھ سرحد کو دیوار میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح افغانستان سے آئے شرپسندوں کو ہم بھی ملک سے باہر دھکیلنا چاہتے ہیں۔ آخر ان افغانیوں نے پوری قوم کا سکون برباد کر رکھا ہے۔ معذرت کے ساتھ یہ رائے ہماری نہیں بلکہ یہ تو دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار پاکستان کی وزارت داخلہ کی قیام امن کے لئے حکمت عملی کا مرکزی نکتہ ہے۔
نو منتخب امریکی صدر کے ابتدائی احکامات میں میکسکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کا فیصلہ ہے جسے امریکی عوام کی اکثریت کی تائید بھی حاصل ہے۔ امریکا اور میکسکو کے درمیان 650 کلومیٹر کی دیوار پہلے ہی موجود ہے اور سفید فام امریکی بڑھتے جرائم کا دوش باہر سے آنے والے افرد کو دیتے ہیں۔ سرحدوں پر آمد ورفت کی پابندیاں جرائم یا دہشت گردی کو شاید ہی ختم کریں مگر تجارت اور روایتی روابط یقیناً نقصان اٹھاتے ہیں۔ دنیا بھر میں بہت سی سرحدوں پر دیواریں زیر تعمیر ہیں۔ دور ہی کیوں جائیں بھارت بڑے عرصہ سے بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانا چاہتا ہے بالکل اسی طرح جیسے ترکی سمیت متعدد یورپی ممالک شام سے آنے والے پناہ گزینوں کو روکنے کے لئےرکاوٹیں قائم کرنا چاہتے ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی سرحدی آمدورفت پر پابندیاں مسائل کے سیاسی حل سے اجتناب کا نتیجہ ہے۔ آج اگر ترکی، امریکا اور سعودی عرب شام کی سیاست میں عدم مداخلت پر متفق ہو جائیں تو شاید بیشتر ممالک میں سرحدی باڑ تعمیر کرنے کا جواز ہی نہ رہے۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ پراکسی جنگوں سے محظوظ ہونے والی ریاستیں ہی عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے مغربی پٹی کے ساتھ دیوار کی تعمیر نے کاروباری سرگرمیوں کو یکسر معطل کیا ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم انسانی وسائل کو سرحدوں اور دیواروں کا پابند کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ دیواروں اور فصیلوں کو ختم کرنے کے لئے سماجی عدم مسابقت کو ختم کرنا ضروری ہے۔
عالمگیریت سے رومانس کے اس دور میں با صلاحیت افرد ترقی کے مواقع پانے کے لئے نئی راہوں پر نکلتے رہیں گے اور نااہل ریاستیں باہمت افرد کی ترقی کے رستوں کو مشکل ہی تو کر سکتی ہیں۔ مت بھولیں کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں ورچوئل ریالٹی یا مجازی حقیقت 360 درجہ کی ہوتی ہے لیکن یہی بات تو کسی کو سمجھ نہیں آ رہی
فیس بک کمینٹ