ہم نے ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو جنرل ضیا الحق کے آمرانہ دور میں پایا جہاں ہر طرف پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کے قصیدے نہیں تبرے اور ہجو سننے کو ملے۔یہ وہ دور تھا جس میں جنرل صاحب اپنے آپ کو پرائی جنگ میں دھکیل کر انکل سام اور اس کے ہمنواؤں کی آنکھ کا تارا بن چکے تھے۔جنرل صاحب نے بھٹو خاندان اور ان کی سیاسی جماعت کو ختم کرنے کے لئے ہر ممکن جتن کیے ۔کارکنوں کو پڑنے والے کوڑے ،قید تنہائی،پھانسیاں ،معاشی پابندیاں،لسانی اور مذہبی جماعتوں کی تشکیل نو اور پشت پناہی بھی جنرل صاحب کے ارادوں کو عملی جامہ نہ پہنا سکی اور وہ پیپلز پارٹی کو ختم کرتے کرتے خود اگلے جہان کو سدھار گئے۔
جنرل ساحب کو پیا سدھارے سالوں سال گزر گئے لیکن ان کے آبیار کئے ہوئے پودے بھی وہی راگ الاپتے رہتے ہیں کہ بھٹو نے ملک دولخت کیا،بھٹوپاکستان کو مغرب بنانا چاہتا تھا،بھٹو سوشلزم کو نافذ کرنے والا تھا۔میرا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ بھٹو ازم کی وکالت کروں لیکن یہ پروپیگنڈہ آمر کے دور میں اس قدر ہوا کہ حقیقت اس جھوٹ کے لبادے میں چھپ گئی اور آج کے دور جنرل ضیا کی گود میں پلنے والے بھی آمریت کی مخالفت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بہت سارے اذہان بھی ضیائی فلسفہ کے حامی و مددگار نظر آتے ہیں۔
ضیائی نظریہ کو اس وقت ہی شکست کا سامنا ہوگیا تھا جب محترمہ نے اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم کا حلف اٹھا کے جمہوری نظام کو ایک دفعہ پھر ریاست پاکستان کا اصول بنایا۔اس حقیقت کو ماننے میں عار نہیں کرنا چاہیے کہ ملک خدادا د میں جمہوریت لانے اور اس کو قائم رکھنے میں محترمہ کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔اگرچہ ضیا کی باقیات نے ان کو کام نہیں کرنے دیا لیکن پھر بھی دو دفعہ وہ ملک کے بااختیار عہدے تک پہنچیں اور اعلی جمہوری اقدار کی بنیاد رکھی۔اس مرد برترمعاشرے میں ایک خاتون کا اعلی عہدے تک پہنچنا،فیصلہ سازی اور حکومت بھٹو کی ذہنی و سیاسی تربیت کا کمال تھا ۔گو کہ ان کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔عوام کی پارٹی ،عوامی ووٹوں سے منتخب سیاسی وڈیروں کو مسند اقتدار میں لے آئی جس کا منشور روٹی،کپڑا اور مکان تھا۔جس کا نعرہ اسلامی سوشلزم تھا۔جو انصاف پہ یقین رکھتی تھی ۔آخر کیا وجہ تھی کہ بھٹو کے نام پہ جہاں کھمبا جیت جاتا تھا،وہاں کھمبوں کووڈیروں پہ ترجیح کیوں نہ دی گئی۔یہی محترمہ کی سب سے بڑی غلطی تھی کہ انہوں نے اپنے والد کے بنائے منشور سے انحراف کیا اور اقتدار میں آنے کی خواہش کو اہمیت دی ۔
کہا جاسکتا ہے کہ محترمہ کو وقت نہیں ملا۔کچھ بھی وجوہات ہوں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان دونوں ادوار اقتدار اس بات کے گواہ ہیں ۔پہلا دور جنرل ضیا کی باقیات اور دوسرا دور ان کے اپنے ایک وڈیرے نے بساط لپیٹ دی۔ایک کامیاب آدمی اپنی غلطیوں اور تجربات سے سیکھ ہی آگے بڑھتا ہے۔محترمہ میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی۔وہ ایک بین الاقومی سوچ رکھنے والی،قوت ارادی سے لبریز ایک باہمت خاتون تھیں ۔وہ تصور محال ہے جب آپ کے سیاسی مخالفین اپنی حدود کو پار کرتے ہوئے آپ کی نازیبا اور گھڑی ہوئی تصاویر عوام میں اچھال رہے ہوں اور اخبارات سنسنی خیز کہانیاں چھاپ رہے ہوں تو ایسی خاتون کا میدان عمل میں کھڑا رہنا مشعل راہ ہے۔
محترمہ کا سب سے بڑا کارنامہ میثاق جمہوریت ہے۔1973 ء کے آئین کے بعد سب سے متفق میثاق۔حالات نے ثابت کیا کہ محترمہ نے میثاق جمہوریت سے اپنے دور اندیش ہونے کا سب سے بڑا ثبوت دیا۔اس معاہدہ نے نہ صرف عدلیہ کی توقیر کو بلند کیا بلکہ آمریت کے چور دروازے کو بند کرنے کے لئے پہلی اینٹ رکھی۔گو کہ فریق مخالف نے اس تحریر کو سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔آج جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے والے،تیسری دفعہ وزیراعظم کے عہدے تک پہنچنے والے محترمہ کے ہی مرہون منت ہیں جس نے نواز شریف کے بغیر پاکستان آنے اور الیکشن میں حصہ لینے سے انکار کردیا تھا۔یہ محترمہ کا ایک بہت بڑا قدم اور جمہوریت پہ احسان تھا۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بی بی کی شہادت پہ ووٹ لے کے آنیوالے مسند اقتدار پہ تو بیٹھ گئے لیکن وہ ان کے قاتلوں کا سراغ نہ لگا سکے۔مدعی ہی مجرموں کے ساتھ مل جائیں تو انصاف ناممکن ہوتا ہے۔محترمہ کا مشن جمہوریت،جمہوریت اور صرف جمہوریت تھا۔اگروہ حیات ہوتیں تو شاید آج جمہوری پاکستان زیادہ توانا اور طاقتور ہوتا لیکن ان کی شہادت دنیا کو ایک ابدی پیغام دے گئی کہ جمہوریت ہی پاکستان کا مستقبل ہے۔سلام اے دختر پاکستان ۔سلام
فیس بک کمینٹ